پیارےاسلامی بھائیو! تمام مومنین آپسں میں دینی رشتے کے سبب ایک دوسرے کے معاون و مدد گار ہیں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جس نے بلاوجہ کسی مسلمان کو ایذادی اُس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھ کو ایذادی اُس نے الله عزوجل کو ایذادی حدیث پاک میں مسلمانوں کے حقوق کی عظمت، اُن کی معاونت اور ایک دوسرے سے شفقت واضح ہے۔ حقیقی مددگار اللہ عزوجل ہے اور اُس کی عطا سے اُس کے بندے بھی معاون و مددگار ہیں اللہ عزّوجل ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی باہم مدد و نصرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(1) مسلمانوں کو تکلیف نہ دینا:حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا، جو شخص ہماری مسجدوں اور بازاروں سے گزرے اور اُس کے پاس تیر ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ اُسے تھام لے یا ارشاد فرمایا اُس کی نوک کو اپنے ہاتھ میں پکڑلے تاکہ کسی مسلمان کو اس سے کوئی تکلیف نہ پہنچے( بخاری شریف کتاب الفتن الحدیث (7075)

(2) مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا:حضرت سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔ مسلمانوں کی آپس میں دوستی رحمت و شفقت کی مثال ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو پورا جسم بخار اور بے خوابی کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے؟

علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بخار ایک حرارت غریبہ ہے جو دل میں پیدا ہوتی ہے اور پورے بدن میں پھیل جاتی ہے جس سے پورے بدن کو تکلیف ہوتی ہے اس حدیث میں مسلمانوں کے حقوق کی تعظیم ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کرنے کا درس فرمایا ہے۔ (فیضان ریاض ا لصالحین جلد 3 ص 237)

(3) مسلمانوں کے ساتھ شفقت کرنا:قرآن پاک میں ارشاد ہے:وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ترجمہ کنز الایمان:اور مسلمانوں کو اپنے رحمت کے پروں میں لے لو۔

امام فخر الدین رازی علیہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس آیت مبارکہ میں حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فقراء مسلمانوں پر رحمت و شفقت اور تواضح کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔(تفسیر کبیر پ 14 الحجر آیت 88)

(4) حاجت پوری کرنا:حضرت سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ بندہ جب تک اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں رہتا ہے اللہ اُسکی حاجت پوری فرماتا رہتا ہے۔ (جنت میں لے جانے والے اعمال صفحہ نمبر 531)

(5) عزت کی حفاظت کرنا: حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جس نے دنیا میں اپنے بھائی کی عزت کی حفاظت کی الله عز وجل قیامت کے دن ایک فرشتہ بھیجے گا جو جہنم سے اُس کی حفاظت فرمائے گا۔(غیبت کی تباہ کاریاں صفحہ نمبر 212)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَیُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا وَیَعْرِفْ لَنَا حَقَّنَا یعنی جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے، ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اور مسلمان کاحق نہ جانے وہ ہم سے نہیں (المعجم الکبیر، 11/355، حدیث: 12276)

یقیناً مسلمان کے حقوق نہایت اہم ہیں، مسلمانوں سے ہمارے کئی طرح کے تعلقات ہوتے ہیں مثلاًباپ، بیٹا، بھائی، ماموں، چچا، پڑوسی، ملازم وغیرہا۔ہر ایک کے اعتبار سے ہمیں ان کے حقوق کو ادا کرناہے، جہاں شریعتِ مُطَہَّرہ نے مسلمانوں کی عزت و عظمت اورمقام و مرتبہ بیان کیا ہے وہیں ان کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیااور کچھ حقوق گنوائے ہیں۔چنانچہ

مسلمانوں کے چھ حقوق: خاتَمُ الْمُرْسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں (1)جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرے (2)جب وہ مرجائے تواس کے جنازہ پرحاضر ہو (3)جب دعوت کرے تواس کی دعوت قبول کرے (4)جب وہ ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے (5)جب وہ چھینکے تو جواب دے (6)اس کی غیر حاضری اور موجودگی دونوں صورتوں میں اس کی خیر خواہی کرے۔(ترمذی، کتاب الأدب، باب ما جاء فی تشمیت العاطس، 4/338، حدیث: 2746)

حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اِس حدیث پاک میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق بیان کئے گئے ہیں ان میں تمام مسلمان برابر ہیں، چاہے نیک ہوں یا بد لیکن اتنا ضرور ہے کہ نیک لوگ خندہ پیشانی، اچھے طریقے سے ملاقات کرنے اور مصافحہ میں پہل کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الجنائز، باب عیادۃ المریض، 4/6، تحت الحدیث: 1525)

پیارے اسلامی بھائیو!مذکورہ احادیث میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق بیان فرمائے گئے ہیں، اِن چھ حقوق کا اِجمالی بیان پیش خدمت ہے

(1)ملاقات کے وقت اپنے مسلمان بھائی کو سلام کرنا سنت ہے، اور سلام کا جواب اتنی آواز سے دینا واجب ہے کہ سلام کرنے والا سن لے۔ سلام کرنے کے بہترین الفاظ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ ہیں اورجواب دینے کے بہترین الفاظ وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ ہیں۔

(2)اپنے مسلمان بھائی کی دعوت کو قبول کرنا اُس وقت سنت ہے جبکہ اُس میں کوئی خلافِ شرع کام نہ ہو، یا وہ دعوت دوسروں کو نیچا دکھانے، فخر اور اپنی واہ وا کے لئے نہ ہو ورنہ ایسی دعوتوں میں شرکت کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

(3)اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت اور اُن کی خیر خواہی کرنا سنت مبارکہ ہےاور جب کوئی نصیحت طلب کرے اور دوسرا اُس پر قادر ہو تو اب نصیحت کرنا واجب ہے۔

(4)چھینکنے والے کو چاہیے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن کہے، جبکہ سننے والا اُس کے جواب میں یَرْحَمُکَ اللہ کہے اور اب چھینکنے والا یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ یا یَھْدِیْکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُم کہے، چھینک کا جواب ایک بار دینا واجب ہے جبکہ چھینکنے والا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہے، ورنہ واجب نہیں۔

(5)اپنے بیمار مسلمان بھائی کی عیادت کرنا سنت مبارکہ ہے اور اَحادیث میں اِس کا بڑا اَجروثواب بیان فرمایا گیا ہے اور اگر اُس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی بھی نہ ہو اور یہ اُس پر قادر ہے تو اب اُس کی دیکھ بھال کرنا اِس پر واجب ہے۔

اپنے مسلمان بھائی کے جنازے میں حتی المقدور شرکت کرنی چاہیے کہ احادیث مبارکہ میں اِس کے بھی بہت فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ مذکورہ احادیث میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق کو بیان فرمایا گیا ہے لیکن یہ حقوق فقط ان چھ میں منحصر نہیں، چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کے ایک دوسرے پر بہت سے حقوق ہیں، صرف اِن چھ میں اِنحصار نہیں۔ حضورِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مواقع پر موقع کی مناسبت سے مختلف حقوق کو بیان کیا یا پھر حقوق المسلمین بتدریج نازل ہوئے، جو حق جب نازل ہوا آپ نے اُسی وقت اُس کو بیان فرمادیا۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَیُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا وَیَعْرِفْ لَنَا حَقَّنَا یعنی جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے، ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اور مسلمان کاحق نہ جانے وہ ہم سے نہیں (المعجم الکبیر، 11/355، حدیث: 12276)

یقیناً مسلمان کے حقوق نہایت اہم ہیں، مسلمانوں سے ہمارے کئی طرح کے تعلقات ہوتے ہیں مثلاًباپ، بیٹا، بھائی، ماموں، چچا، پڑوسی، ملازم وغیرہا۔ہر ایک کے اعتبار سے ہمیں ان کے حقوق کو ادا کرناہے، جہاں شریعتِ مُطَہَّرہ نے مسلمانوں کی عزت و عظمت اورمقام و مرتبہ بیان کیا ہے وہیں ان کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیااور کچھ حقوق گنوائے ہیں۔چنانچہ

مسلمانوں کے چھ حقوق: خاتَمُ الْمُرْسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں (1)جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرے (2)جب وہ مرجائے تواس کے جنازہ پرحاضر ہو (3)جب دعوت کرے تواس کی دعوت قبول کرے (4)جب وہ ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے (5)جب وہ چھینکے تو جواب دے (6)اس کی غیر حاضری اور موجودگی دونوں صورتوں میں اس کی خیر خواہی کرے۔(ترمذی، کتاب الأدب، باب ما جاء فی تشمیت العاطس، 4/338، حدیث: 2746)

حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اِس حدیث پاک میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق بیان کئے گئے ہیں ان میں تمام مسلمان برابر ہیں، چاہے نیک ہوں یا بد لیکن اتنا ضرور ہے کہ نیک لوگ خندہ پیشانی، اچھے طریقے سے ملاقات کرنے اور مصافحہ میں پہل کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الجنائز، باب عیادۃ المریض، 4/6، تحت الحدیث: 1525)

پیارے اسلامی بھائیو!مذکورہ احادیث میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق بیان فرمائے گئے ہیں، اِن چھ حقوق کا اِجمالی بیان پیش خدمت ہے

(1)ملاقات کے وقت اپنے مسلمان بھائی کو سلام کرنا سنت ہے، اور سلام کا جواب اتنی آواز سے دینا واجب ہے کہ سلام کرنے والا سن لے۔ سلام کرنے کے بہترین الفاظ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ ہیں اورجواب دینے کے بہترین الفاظ وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ ہیں۔

(2)اپنے مسلمان بھائی کی دعوت کو قبول کرنا اُس وقت سنت ہے جبکہ اُس میں کوئی خلافِ شرع کام نہ ہو، یا وہ دعوت دوسروں کو نیچا دکھانے، فخر اور اپنی واہ وا کے لئے نہ ہو ورنہ ایسی دعوتوں میں شرکت کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

(3)اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت اور اُن کی خیر خواہی کرنا سنت مبارکہ ہےاور جب کوئی نصیحت طلب کرے اور دوسرا اُس پر قادر ہو تو اب نصیحت کرنا واجب ہے۔

(4)چھینکنے والے کو چاہیے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن کہے، جبکہ سننے والا اُس کے جواب میں یَرْحَمُکَ اللہ کہے اور اب چھینکنے والا یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ یا یَھْدِیْکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُم کہے، چھینک کا جواب ایک بار دینا واجب ہے جبکہ چھینکنے والا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہے، ورنہ واجب نہیں۔

(5)اپنے بیمار مسلمان بھائی کی عیادت کرنا سنت مبارکہ ہے اور اَحادیث میں اِس کا بڑا اَجروثواب بیان فرمایا گیا ہے اور اگر اُس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی بھی نہ ہو اور یہ اُس پر قادر ہے تو اب اُس کی دیکھ بھال کرنا اِس پر واجب ہے۔

اپنے مسلمان بھائی کے جنازے میں حتی المقدور شرکت کرنی چاہیے کہ احادیث مبارکہ میں اِس کے بھی بہت فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ مذکورہ احادیث میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق کو بیان فرمایا گیا ہے لیکن یہ حقوق فقط ان چھ میں منحصر نہیں، چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کے ایک دوسرے پر بہت سے حقوق ہیں، صرف اِن چھ میں اِنحصار نہیں۔ حضورِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مواقع پر موقع کی مناسبت سے مختلف حقوق کو بیان کیا یا پھر حقوق المسلمین بتدریج نازل ہوئے، جو حق جب نازل ہوا آپ نے اُسی وقت اُس کو بیان فرمادیا۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو حقوق العباد کے معاملے میں تمام مسلمان چاہے نیک ہو یا گنہگار سب برابر ہیں۔ البتہ نیک لوگ حسن سلوک کے زیادہ حق دار ہیں۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کئی حقوق ہیں۔ البتہ ان تمام حقوق کو کسی ایک حدیث میں نہیں بلکہ وقتا فوقتاً مختلف احادیث مبارکہ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ ایک بار آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کعبہ معظمہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا مومن کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے۔۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں۔ جب اس کی آنکھ میں تکلیف ہوگی تو سارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگر اس کے سر میں درد ہو تو سارے جسم میں درد ہو گا۔ (مسلم، کتاب، البر والصلتہ والآداب، باب تراحم المؤمنین الخ، ص 1396، حدیث 2586

(1)ظلم سے روکنا: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بھائی کی مدد کر وخواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ کسی نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، اگر وہ مظلوم ہو تو مدد کروں گا لیکن ظالم ہو تو کیسے مدد کروں ؟ارشاد فرمایا ’’اس کو ظلم کرنے سے روک دے یہی (اس کی)مدد کرنا ہے۔(بخاری، کتاب الاکراہ، باب یمین الرجل لصاحبہ الخ، 4/389 الحدیث: 952)

(2)ضرورت پوری کرنا : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا’’مسلمان،مسلمان کابھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کورُسواکرے،جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتاہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتاہے اورجوشخص کسی مسلمان سے مصیبت کودورکرتاہے تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں سے کوئی مصیبت دُورفرمادے گااورجوشخص کسی مسلمان کاپردہ رکھتاہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کاپردہ رکھے گا۔(بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلم الخ،2/126، الحدیث: 2662)

(3) پیٹھ پیچھے اس کی عزت کی حفاظت کرنا: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو اپنے (مسلمان) بھائی کی پیٹھ پیچھے اس کی عزت کا تحفظ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کر دے۔(مسند امام احمد جلد 4 ص 461)

(4)مدد کرنا :حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی بندے کی ضرورت میں اس کی مدد کی الله عز وجل اسے اس دن ایسی جگہ پر ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔ جس دن قدم پھسلیں گے۔(الترغیب والترھیب ص 263)

(5)خوشی داخل کرنا: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تمہارا اپنے مسلمان بھائی کے دل میں خوشی داخل کرنا مغفرت کو واجب کرنے والے اعمال میں سے ہے۔ (مجمع الزوائد ص 352)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


دین اسلام میں جس طرح نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا حکم دیا گیا ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان، حیوان، چرند، پڑند اور نیز دیگر مخلوقات کے حقوق کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ان تمام میں بھی سب سے مقدم حقوق العباد ہے۔ حدیث شریف میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کثیر تعداد میں مسلمانوں کے حقوق کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے مسلمان اپنے مسلمان بھائی پر کچھ حقوق رکھتا ہے، جنکی ادائیگی واجب ہے، ان حقوق کی تعداد بہت زیادہ ہے، البتہ ان میں سے بعض حقوق کا ذکر ہم یہاں کرتے ہیں۔

مسلمانوں کے بنیادی حقوق: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فر ما یا: مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!وہ کو ن سے ہیں ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فر ما یا: جب تم اس سے ملو تو اس کو سلام کرو اور جب وہ تم کو دعوت دے تو قبول کرو اور جب وہ تم سے نصیحت طلب کرے تو اس کو نصیحت کرو اور جب اسے چھینک آئے اور الحمدللہ کہے تو اس کے لیے رحمت کی دعاکرو۔ جب وہ بیمار ہو جا ئے تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ فوت ہو جا ئے تو اس کے پیچھے (جنازے میں) جاؤ۔ (صحیح مسلم/5651)

پہلا حق: سلام کا جواب دینا: جب کوئی مسلمان اپنے دوسرے بھائی سے ملتا ہے تو اس پر حق ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو سلام کرے اور دوسرے پر حق ہے کہ وہ سلام کا جواب دے۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دو مسلمان جب آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کو جدا ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔ (ترمذی/2727)

دوسرا حق:دعوت قبول کرنا: جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو دعوت پیش کرے تو دوسرے پر حق ہے کہ وہ اس کی دعوت کو قبول کرے۔ کسی شرعی عذر کے تحت منع بھی کر سکتا ہے۔

تیسرا حق:بہتریں رائے دینا: جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی سے کسی کام کے سلسلے میں نصیحت، رائے طلب کرے تو دوسرے کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کو بہتر سے بہتر اور بھلائی والی نصیحت کرے۔

چوتھا حق: چھینک کا جواب: جب کسی مسلمان بھائی کو چھینک آئے تو دوسرے کو چاہیے کہ اس کے لیے رحمت کی دعا کریں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے تو (الحمد للہ) کہے اور اسکا بھائی یا ساتھی یَرْحَمُکَ اللہ کہے،پھر جب وہ یرحمک اللہ کہے تو چھینکنے والا یَھْدِیْکُمُ اللہ وَ یُصْلِحُ بَالَکُمْ کہے۔(صحیح بخاری، 6624)

پانچواں حق:بیمار کی عیادت: جب کوئی مسلمان بیمار ہو جائے تو دوسرے مسلمان بھائی کو چاہیے کہ اس کی عیادت کے لئے جائے۔ یہ بہت اہم حق ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب کسی بیمار کی عیادت کیلئے تشریف لے جاتے تو فرماتے: لَا بَأْسَ طَھُوْرٌ اِنْ شَآءَ اللہ کوئی حرج نہیں اگر اللہ نے چاہا تو یہ بیماری پاک کرنے والی ہے۔ (صحیح بخاری/3616)

چھٹا حق:جنازہ میں شرکت: جب کوئی مسلمان اس دنیا سے رخصت ہو جائے تو دوسرے مسلمان بھائی کو چاہیے کہ اس کی نماز جنازہ کے لیے جائے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے چلے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھنے اور دفن سے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہے گا تو وہ دو قیراط اجر لے کر لوٹے گا، ہر قیراط احد پہاڑ کی مانند ہے اور جو اس کو دفنائے جانے سے قبل صرف نماز جنازہ پڑھ کر لوٹ آئے تو وہ ایک قیراط کے ساتھ واپس آئے گا۔ (صحیح بخاری/1323/1325)

نیز اسی طرح احادیث میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بہت سے مقامات پر مسلمانوں کے حقوق کے بارے لوگوں کی رہنمائی فرمائی ہے جن میں مسلمان بھائی کی مدد کرنا مصیبت میں، سب کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا، کسی کی عیب جوئی نہ کرنا،نہ کسی کی غیبت کرنا، مسلمان بھائی کے بارے برا گمان نا کرنا اور ہمیشہ اپنے مسلمانوں کی بھلائی کے بارے میں سوچنا۔ اللہ پاک ہمیں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے اپنے مسلمان بھائیوں کے حقوق پورا کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


مسلمانوں کی اہمیت: تمام مسلمان جسم واحد کی طرح ہیں کہ جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اور مسلمانوں کے آپس میں رہنے کے متعلق قرآن وحدیث میں مسلمانوں کی عزت واہمیت کا تذکرہ موجود ہے کیونکہ مسلمان کی عزت و اہمیت بہت ضروری ہے آیئے مسلمانوں کی عزت و اہمیت کو جاننے کے لیے حدیث مبارکہ پڑھتے ہیں۔

مسلمان کی پریشانی دور کرنا: مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی پر ایک حق یہ ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی پریشانی دور کرے اسے کوئی پریشانی، اُلجھن یا تنگدستی میں دیکھے تو اس کی مدد کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کی دنیوی پریشانیوں میں سے کوئی ایک پریشانی دور کرے، الله قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دور فرمائے گا۔(مسلم، کتاب الذکر والدعا۔ الخ۔ باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن ۔ الخ، ص 1110 حدیث:6853)

مسلمان کی تعزیت کرنا: مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے غم میں شریک ہو۔ اُسے مصیبت میں دیکھ کر اس کی تعزیت کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت میں تعزیت کرے۔ الله پاک قیامت کے دن اُسے عزت کا لباس پہنائےگا۔(ابن ماجہ، 268/2، حدیث: 1601)

مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا: مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے دل میں خوشی داخل کرے۔ اس سے اچھے اخلاق سے پیش آئے۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: الله پاک کے نزدیک فرائض کی ادائیگی کے بعد سب سے افضل عمل مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا ہے۔( حدیث نمبر:11079 ، معجم کبیر 59/11)

مسلمان کو پانی اور کھانا کھلانا: اپنے مسلمان بھائی کی حاجات پوری کرے۔ اپنے مسلمان بھائی کی پیاس بھجائے اگر وہ بھوکا ہو تو اسے کھانا کھلائے اسے اچھے کپڑے پہنائے۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ جو مسلمان کسی ننگے مسلمان کو پہنائے اللہ اسے جنت کے سبز جوڑے پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھلائے تو اللہ اسے جنت کے پھل کھلائے گا اور جو مسلمان کسی پیاسے مسلمان کو پلائے تو اللہ اسے مہر والی پاک و صاف شراب پلائے گا۔ (ابو داؤد، ترمذی، مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابيح 3/ص 116)

مسلمان کو تکلیف نہ دینا: اپنے مسلمان بھائی کو کبھی تکلیف نہ دیں۔ اسے کبھی ایذا نہ دیں اسے کبھی پریشان نہ کریں۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ ایک شخص درخت کی شاخ پر گزرا جو بر سر راہ پڑی تھی۔ وہ بولا کہ اسے مسلمانوں کے راہ سے ہٹادوں کہیں انہیں تکلیف نہ دے وہ جنت میں داخل کیا گیا۔ (مسلم بخاری، مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، ج 3/ص111)

مسلمان کا آپس میں مصافحہ کرنا:اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ مصافحہ کرو۔ مصافحہ کرنا سنت ہے۔ہر بار کرنا مستحب ہے۔ اپنے مسلمان بھائی سے جتنی دفعہ ملاقات ہو ہر بار مصافحہ کریں۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان بوقت ملاقات مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے پہلے ان کے گناہ معاف کر دئیے جاتےہیں۔ (ابوداود، کتاب الادب،باب فی المصافحت،4/453 حدیث: 5212)

خیانت نہ کرنا: مسلمان کو آپس میں برادرانہ تعلقات قائم کرنے چاہیں۔ تاکہ کسی کہ حقوق چھینے نہ جا سکیں اور نہ ہی کوئی کمزور پر ظلم کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس کے ساتھ خیانت نہ کرے اور نہ ہی اس سے جھوٹ بولے۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 1927)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اے عاشقان رسول! کسی بھی معاشرے میں رہنے اور اس کو پر سکون بنانے کے لیے کچھ نہ کچھ حقوق و فرائض کی حاجت پیش آتی ہے۔اردو میں حق کی جمع کو حقوق کہتے ہیں یعنی ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر جو حق ہے اس کو حقوق کہتے ہیں اگر کسی معاشرے(Society) میں ایک دوسرے کے حقوق کا اہتمام نہ کیا جائے تو وہ معاشرہ،معاشرہ نہیں بلکہ جنگل کہلاتا ہے۔ہمارا دین اسلام چونکہ سب سے افضل و کامل مذہب ہے لہذا ہمارے مذہب نے نہ صرف ہمیں کل کائنات کے بلکہ حیوانات اور جمادات کے حقوق کے متعلق بھی ہماری رہنمائی کی ہے۔اسلام نے چونکہ ہمیں ایک خوبصورت اسلامی معاشرہ مہیا کیا ہے لہذا ہمیں مسلمانوں کے حقوق پر بھی عمل پیرا ہونے کی تاکید کی ہے۔خود قرآن و حدیث میں مسلمانوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں: مسلمانوں کے چند حقوق پیش خدمت ہے:

(1) احترام مسلم: جس طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے افضل نبی علیہ السلام ہیں اس طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت بھی سب سے افضل امت ہے اور انسان تو اشرف المخلوقات ہے لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کا احترام کرے اس کے ساتھ اچھا رویہ رکھے اور کبھی بھی اس کی عزت خراب نہ کرےاور ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کی اس کے مقام کے مطابق عزت کرے ۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے: جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر میں دراذی اور رزق میں فراخی ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور رشتے داروں سے حسن سلوک کرے۔(بخاری جلد 4 صفحہ 97 حدیث 598)

(2)صلہ رحمی: صلہ رحمی کا معنی رشتہ جوڑنا ہے مسلمانوں کے حقوق میں سے ایک بہت ہی اہم حق صلہ رحمی کرنا ہے۔اے عاشقان رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یاد رکھیے کہ ذو محرم رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا واجب ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى ترجمہ کنزالایمان:اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں سے۔(پ1، البقرۃ: 83) اس آیت کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ قربیٰ بمعنی قرابت ہے یعنی اپنے اہل قرابت کے ساتھ احسان کرو۔تو اے عاشقان رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اب ہمارا کوئی رشتے دار ہمارے ساتھ حسن سلوک کرے یا نہ کریں ہم پر لازم ہے کہ ہم اس کے ساتھ حسن سلوک کریں ۔

(3) ماتحتوں کے حقوق: پیارے اسلامی بھائیو! عموماً ہمارے ماتحت کچھ نہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جیسے کہ اگر ایک شخص والد ہے تو اس کی اولاد اس کی ماتحت ہے شوہر ہے تو بیوی اس کی ماتحت ہے اسی طرح اگر وہ مالک ہے تو اس کا غلام اس کے ماتحت ہے۔لہذا اس شخص پر ضروری ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کرے اور ان کی غلطیوں پر درگزر کرے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرے۔

(4) تعزیت کرنا: پیارے اسلامی بھائیو اگر ایک مسلمان بیمار ہو جائے تو دوسرے مسلمان پر اس کا حق ہے کہ وہ اس کی عیادت کرے۔جو کہ حدیثوں سے ثابت ہے۔اسی طرح اگر کسی پر کوئی مصیبت آ جائے تو اس پر ہنسنے کی بجائے اس کی مصیبت پر خوش ہونے کی بجائے ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے ساتھ تعزیت کریں ۔فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت میں تعزیت کرے اللہ پاک قیامت کے دن اسے عزت کا لباس پہنائے گا۔(ابن ماجہ 268/2 حدیث نمبر 1601)

(5) تکلیف دور کرنا: محترم اسلامی بھائیو کسی مسلمان کو ایذا نہیں د ینا چاہیے وہ زبان سے ہو یا ہاتھ سے بہت سخت گناہ اور اس کی حق تلفی ہے۔پرسکون ماحول قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم لڑائی جھگڑے،طعنے بازی اور گالی گلوچ سے دور رہیں۔ فرمان تاجدارِ رسالت ہے:مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(بخاری 15/1 حدیث نمبر 16)

پیارے اسلامی بھائیو مذکورہ بحث سے آپ پر یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ اسلام نے ہم پر مسلمانوں کے بہت سے حقوق لازم کیے ہیں لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم مسلمانوں کے حقوق کو ادا کر نے کی بھر پور کوشش کریں۔فقط واٹس ایپ سٹیٹس اور فیس بک پوسٹ کی حد تک ہی نہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی مسلمانوں کو سکون پہنچائیں اور ان کی راحت کا باعث بنیں۔اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں عرض ہے کہ ہمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین ثم آمین بجاہ خاتم النبین الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


جان لیجئے کہ انسان یا تو اکیلا رہتا ہے یا کسی کے ساتھ اور چونکہ انسان کا اپنے ہم جنس لوگوں کے ساتھ میل جول رکھے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہے، لہذا اس پر مل جل کر رہنے کے آداب سیکھنا ضروری ہیں۔ چنانچہ ہر اختلاط رکھنے والے کے لئے مل جل کر رہنے کے کچھ آداب ہیں اور وہ بھی اس کے حق کی مقدار کے مُطابق ہیں اور اس کا حق اس کے رابطے و تعلق کی مقدار کے مطابق ہے آیئے مسلمانوں کے کچھ حقوق پڑھتے اور ان پر عمل کرنے کی نیت کرتے ہیں :

(1) مسلمان کو حقیر نہ جاننا: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:مسلمان کی سب چیزیں مسلمان پر حرام ہیں، اس کا مال اور اس کی آبرو اور اس کا خون آدمی کو بُرائی سے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔(غیبت کی تباہ کاریاں، 101)

(2) مسلمان پر عیب نہ لگانا: ابو داود نے معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص مسلمان پر کوئی بات کہے اس سے مقصد عیب لگانا ہو، اللہ تعالی اس کو پل صراط پر روکے گا جب تک اس چیز سے نہ نکلے جو اس نے کہی۔(سنن ابی داود، كتاب الأدب، باب من رد عن مسلم غيبة، الحديث:4883٫ج4،ص355)

(3) اللہ تعالیٰ کی مدد:شرح سنہ میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جس کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت کی جائے اور وہ اس کی مدد پر قادر ہو اور مدد کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی مدد کرے گا اور اگر باوجود قدرت اس کی مدد نہیں کی تو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اسے پکڑے گا۔(شرح السنة كتاب البر والصلۃ باب الذب عن المسلمين، الحدیث:3424، ج 6، ص 495)

(4) آگ سے حفاظت :رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو مسلمان اپنے بھائی کی آبرو سے روکے یعنی کسی مسلم کی آبرو ریزی ہوتی تھی اس نے منع کیا تو اللہ عز وجل پر حق ہے کہ قیامت کے دن اس کو جہنم کی آگ سے بچائے۔ اس کے بعد اس آیت کی تلاوت کی: وَكَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ(47) ترجمہ کنزالایمان: اور ہمارے ذمہ کرم پر ہے مسلمانوں کی مدد فرمانا۔ (سنن أبی داود، كتاب الأدب، باب في النصيحة والحياطة، الحديث: 4918، ج 4، ص365)

(5) مسلمان پر ظلم و ستم نہ کرے: رحمت عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: الْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ لَا يُظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ یعنی مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے رسوا کرتا ہے اور نہ ہی اسے بے یار و مدد گار چھوڑتا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب تحريم الظلم، الحدیث: 2580، ص 1394)

(6) مسلمان کا ذکر:حضرت سید نا مجاہد بن جبیر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تم اپنے مسلمان بھائی کی عدم موجودگی میں اس کا ذکر اس طرح کرو جس طرح اپنی غیر موجودگی میں تم اپنا تذکرہ کیا جانا پسند کرتے ہو۔(احیاء العلوم جلد دوم صفحہ 656)

اللہ پاک ہمیں مسلمانوں کے حقوق احسن طریقے سے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو! اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے، اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں چھوٹے بڑے، امیر و غریب، مرد و عورت، بچے نوجوان بوڑھے ہر شخص کے تفصیل کے ساتھ حقوق بیان کیے گئے ہیں، نیز اُن کی پاسداری کا بھی عظیم الشان درس دیا گیا ہےکہ اسلام میں اگر کوئی شخص حقوق اللہ کو اچھے طریقے سے ادائیگی نہ کر سکے، مگر اس پر شرمندہ ہو، ندامت اختیار کرے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اُسے کل بروز قیامت اپنے وہ حقوق معاف فرمادے لیکن حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق تلف کیے تو رب تعالیٰ بھی اُس وقت تک وہ حقوق معاف نہ فرمائے گا جب تک کہ جس شخص کا حق تلف کیا ہے وہ معاف نہ کر دے، یا حق تلفی کرنے والا اُسے راضی نہ کرلے۔

(1) دعوت قبول کرنا: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ دو عالم کے مالک و مختار، مکی مدنی سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، جنازوں کے پیچھے چلنا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا۔ (مسلم کتاب السلام،باب من حق المسلم،ص1196،حدیث2162)

(2) نصیحت کرنا: اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت اور اُن کی خیر خواہی کرنا سنتِ مبارکہ ہے اور جب کوئی نصیحت طلب کرے اور دوسرا اُس پر قادر ہو تو اب نصیحت کرنا واجب ہے۔(فیضان ریاض الصالحین،ج3،ص،303)

(3) قسم کو پورا کرنا: علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص مستقبل کے متعلق کسی ایسے کام کی قسم کھائے جو تم کرسکتے ہو تو ضرور کر دو تاکہ اس کی قسم پوری ہو جائے اور قسم ٹوٹنے کی وجہ سے اُس پر کفار واجب نہ ہو جیسے کوئی کہے: خدا کی قسم! جب تک تم فلاں کام نہ کر لو، میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا تو تم وہ کاضرور کر لو بشر طیکہ وہ کام نا جائز نہ ہو۔( مرقاة المفاتيح، كتاب الجنائز، باب عيادة المريض ۔۔۔ الخ، 7/4، تحت الحدیث: 1522 ملتقطاً)

(4) حاجت پوری کرنا: حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ تو وہ اس پر ظلم کرے اور نہ ہی اُسے کسی ظالم کے حوالے کرے۔ جو مسلمان اپنے کسی بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے۔ جو کسی مسلمان بھائی کی ایک دُنیوی تکلیف کو دور کرے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کی تکالیف میں سےاُس کی ایک تکلیف کو دور فرمائے گا۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ عزو جل قیامت کے دن اُس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (فیضانِ ریاض الصالحیں ج ،3 ،ص، 331)

(5) حضرت سید نازید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک صاحب لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ بندہ جب تک اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں رہتا ہے اللہ عزو جل اسکی حاجت پوری فرماتا رہتا ہے۔ (مجمع الزوائد، کتاب البر والصلۃ، باب فضل قضاء الحوائج، رقم 13723، ج 8، ص 353)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمان سے پیار و محبت سے پیش آئے اور اسکے حقوق جو اللہ تعالٰی نے بیان فرمائے ہیں انکو اچھے طریقے سے پورا کرے جیسے اگر کوئی مسلمان پیاسہ ہے اسکو پانی پلائے اور اگر کوئی بھوکا ہے تو اسے کھانا کھلائے کیونکہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جو کوئی مسلمان کو کھانا کھلائے گا تو اللہ تعالٰی اسکو جنت کے پھل کھلائے گا سبحان اللہ لہذا ہمیں بھی مسلمانوں کے حقوق اچھے انداز سے ادا کرنے چاہیے آئیے مسلمانوں کے حقوق احادیث کی روشنی میں پڑھئے:

(1) مسلمان کو کپڑے پہنانا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کو کپڑا نہیں پہناتا مگر جب تک اس کے بدن پر اس کا ایک چیتھڑا بھی رہے یہ اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے۔ (مراۃ المناجیح جلد سوم ص121)

(2) مسلمان کو پانی پلانا: حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا جو مسلمان کسی پیاسے کو پلائے تو الله اسے مہر والی پاک وصاف شراب پلائے گا۔ (مراۃ المناجیح جلد سوم،ص116)

(3)مسلمان بھائی کی بے عزتی نہ کرنا:رسول کریم کا فرمان عالیشان ہے کہ بیشک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔(سنن ابو داود ج 4 ص 335 حدیث 4877)

(4) مسلمانوں کو ایذا نہ دینا: حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے جس نے (بلا وجہ شرعی) کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔(المعجم الاوسط، ج2، ص387، حدیث 3607)

(5)مسلمانوں کے عیب چھپانا: حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے بھائی کا عیب دیکھ کر اس کی پردہ پوشی کردے تو وہ جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔(مسند عبد بن حمید ص 279 حدیث 885)

پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں بھی مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے چاہیے لیکن افسوس آج کل حقوق ادا کرنا تو دور ہمیں تو مسلمانوں کے حقوق بھی معلوم نہیں ہیں اور آج معاشرے میں بے امنی اور قتل و غارت اور فتنہ وفساد بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ ہمیں مسلمانوں کے حقوق معلوم نہیں ہوتے لہذا ہمیں قرآن وسنت کی روشنی میں مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے چاہیے تاکہ ہمارا معاشرہ بھی ایک امن کا گہوارہ بن سکے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


دین اسلام ایک پر امن اور کامل و اکمل دین ہے جو نہ صرف عبادات و عشق مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا درس دیتا ہے۔ بلکہ اسلامی تعلیمات پر کار بند رہ کر تمام مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے کا پابند بناتا ہے چنانچہ آپ بھی مسلمانوں کے 5 حقوق ملاحظہ کیجیے۔

1 سلام کا جواب دینا: مسلمانوں کے بنیادی حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ مسلمان کو سلام کیا جائے۔ سلام کرنے کے بارے میں احادیث میں بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں جیسا کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر السَّلَامُ عَلَیْکُم کہا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: 10 نیکیاں دوسرا شخص آیا اس نے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اﷲ کہا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: 20 نیکیاں تیسرا شخص آیا اس نے السَّلَامُ عَلَيْكُم وَرحمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُہ کہا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: 30 نیکیاں۔ (سنن الترمذی، الحدیث 2698)

2 مسلمانوں سے تکلیف دہ چیز دور کرنا: حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشا د رحمت بنیاد ہے: مَنْ زَحْزَحَ عَنْ طَرِيقِ المُسْلِمِينَ شَيْئًا یُّؤْذِيهِمْ كَتَبَ اﷲ لَه بِهِ حَسَنَةً وَّمَنْ كَتَبَ اﷲ لَهُ اَوْجَب لَهُ بهَا الجَنَّۃ جو مسلمان کے راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز دور کرتا ہے تو اﷲ عَزَّوَجَلَّ اس کے بدلے میں اس شخص کے لیے ایک نیکی کی وجہ سے جنت واجب فرما دیتا ہے ۔ (المسند للاماء احمد بن حنبل، الحدیث: 27549، پتغیر قلیل)

3 پریشانی دور کرنا: حضرت سیدنا ابن عمر رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ شہنشاہِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے قید کرتا ہے اور جو کوئی اپنے بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے اﷲ عَزَّوَجَلَّ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے اور جو کوئی مسلمان کی ایک پریشانی دور کرے گا اﷲ عَزَّوَجَلَّ قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دور فرمائے گا اور جو کوئی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اﷲ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔(مسلم، کتاب کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم، رقم 258،ص1392)

4 دعوت قبول کرنا: شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مسلمان مسلمان بھائی کی دعوت قبول کرتے ہوئے اس میں شرکت کرنا ہے یہ اس وقت سنت مبارکہ ہے جبکہ وہاں خلاف شرع کام نہ ہو اور اگر خلاف شرع کام ہو رہے ہوں تو دعوت قبول نہ کرنا لازم ہے مجھے حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے تو یہاں تک فرمایا کہ جو دعوت اپنے آپ کو اونچا دکھانے فخر اور واہ واہ کے لئے ہو اس دعوت کو قبول کرنا منع ہے۔(اشعۃ اللمعات كتاب الصلوه، باب عياده المريض وثواب المريض،673/1)

5 مسلمان بھائی کی قسم کو پورا کرنا: علامہ ملا علی قاری رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں: کوئی شخص مستقبل کے متعلق کسی ایسے کام کی قسم کھائے جو تم کر سکتے ہو ضرور کر دو تا کہ اس کی قسم پوری ہو جائے اور قسم ٹوٹنے کی وجہ سے اس پر کفارہ واجب نہ ہو جیسے کوئی کہے: خدا کی قسم! جب تک تم فلاں کام نہ کر لو، میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا تو تم وہ کام ضرور کر لو بشرطیکہ وہ کام نا جائز نہ ہو (مرقاة المفاتيح، تحت الحدیث:526، ملتقاً)

اﷲ تعالٰی ہمیں مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمين

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


(1) مسلمانوں کے پانچ حقوق: حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مسلمان پر دوسرے مسلمان کے پانچ حقوق ہے۔ (1)سلام کا جواب دینا (2) مریض کی عیادت کرنا (3) جنازے کے ساتھ جانا (4) دعوت قبول کرنا(5)چھینکنے والے کا جواب دینا۔(بخاری،حدیث 1240)

(2) کامل مسلمان کون : ایک مرتبہ حضور نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ارشاد فرمایا: جانتے ہو مسلمان کون ہے ؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: الله عز وجل اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (المسند امام احمد بن حنبل،حدیث 17024)

(3)مسلمان کی ستر پوشی کرنا : نور کے پیکر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو الله عز وجل دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔(صحیح مسلم، حدیث 2699)

(4) مسلمان سے سلام و مصافحہ کرنا : ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اسلام علیکم کہا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: 10 نیکیاں ۔ دوسرا شخص آیا اس نے السّلامُ عَلَیكُم وَرحمة الله کہا۔ ارشاد فرمایا ۔20 نیکیاں تیسرا شخص آیا اس نے السلام عَلَيْكُمْ وَرحمة الله وَبرکاتہ کہا۔ ارشاد فرمایا 30 نیکیاں۔(سنن الترمذی، حدیث: 2698) حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں سلام کرتے اور اس کے متعلق فرماتے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی ایسا کیا کرتے۔ (صحیح مسلم، الحدیث 2168)

(5) مسلمان بھائی کی عزت کی حفاظت کرنا: ایک شخص نے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی موجودگی میں دوسرے شخص کو تکلیف پہنچائی تو دوسرے شخص نے اس کا دفاع کیا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرے گا تو یہ بات اس شخص کے لیے جہنم کی آگ سے آڑ ہوگی۔(سنن الترمذی، الحديث 1938)

اللہ عزوجل ہمیں مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔