اللہ پاک نے انسانوں پر فضل فرمایا اور اسے کثیر نعمتوں سے سرفراز فرمایا انہی میں سے ایک نعمت حسن ظن بھی ہے جس کا حصول کثیر فضائل و فوائد کا مجموعہ ہے اسی کے بر عکس ایک وصف قبیح(برا) بھی پایا جاتا ہے جسے بد گمانی سے موسوم کیا جاتا ہے ۔

آئیے اس کے متعلق کچھ باتیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ پاک ہم سب کو بری خصلتوں سے بچا کر اچھی خصلتوں کا خوگر بنائے۔ اٰمین

بد گمانی کیا ہے؟ بد گمانی مطلقاً برے گمان کو کہتے ہیں ۔ مسلمانوں سے اچھا گمان رکھنا واجب اور بد گمانی سے بچنا لازم ۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں اِرشاد فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ 26،الحجرات:12 )

حضرت علّامہ عبداللہ ابو عُمَر بن محمد شیرازی بیضاوی رحمۃُ اللہ علیہ (المتوفی791ھ) تفسیر بیضاوی میں لکھتے ہیں : تاکہ مسلمان ہر ُگمان کے بارے میں مُحْتَاط ہوجائے اور غور وفکر کرے کہ یہ ُگمان کس قبیل سے ہے۔ (تفسیر بیضاوی ، پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 5/218)

اس آیت ِکریمہ کے تحت حضرت سیدنا اِمام فخر الدین رازِی رحمۃُ اللہ علیہ (المتوفی606ھ) تفسیر ِکبیر میں لکھتے ہیں : کیونکہ کسی شخص کا کام دیکھنے میں تو بُرا لگتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ممکن ہے کہ کرنے والا اسے بھول کر کررہا ہو یا دیکھنے والا ہی غَلَطی پر ہو ۔ (التفسیر الکبیر ، پ26 ، الحجرٰت ، تحت الآیۃ 12 ، 10/110)

معلوم ہوا کہ بد گمانی کا ثبوت قراٰن کریم سے بھی ہے ۔ آئیے مزید احادیث مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء کی روشنی میں اس وصفِ قبیح کے بارے میں جانتے ہیں:۔

حضرت سیدنا حارثہ بن نعمان رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ نور کے پیکر ، تمام نبیوں کے سَرْوَر ، دو جہاں کے تاجْوَر ، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : میری امت میں تین چیزیں لازِماً رہیں گی : بدفالی ، حَسَد اور بد ُگمانی۔ ‘‘ ایک صحابی رضی اللہُ عنہ نے عرض کی : ’’یارسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں وہ ان کا کس طرح تدارُک کرے ؟‘‘ارشاد فرمایا : ’’جب تم حَسَد کرو تو اللہ پاک سے اِسْتِغْفار کرو اور جب تم کوئی بد ُگمانی کرو تو اس پر جمے نہ رہو اور جب تم بدفالی نکالو تو اس کام کو کر لو۔ ‘‘ (المعجم الکبیر ، 3/228،حدیث: 3227)

مزید تین فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں:۔

(1) نبی مکرّم،نورِ مجسّم،رسولِ اکرم،شہنشاہِ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بد گمانی سے بچو بے شک بد گُمانی بد ترین جھوٹ ہے۔( صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب مایخطب علی خطبۃ اخیہ،3/446،حدیث: 5143)

(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

(3) حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے : جس نے اپنے مسلمان بھائی سے بُرا گُمان رکھا ، بے شک اس نے اپنے ربّ سے بُرا گُمان رکھا۔ (الدرالمنثور ، پ26 ، الحجرات ، تحت الآیۃ12 ، 7/566)

یاد رہے بد گمانی اسی صورت میں موجب گناہ ہوگی جبکہ دل میں اس گمان کا یقین پایا جائے محض کسی شخص کے متعلق دل میں غلط خیال آجانے کا نام بد گمانی نہیں ہے وگرنہ اس سے بچنا انتہائی دشوار امر ہوجائے گا۔

اس کی پہچان یہ ہے کہ اگر اس شخص کے ساتھ آپ کا رویہ مختلف ہوجائے یا اس کی نفرت دل میں پائی جائے یا اس کی اہمیت جو دل میں تھی اس میں کمی واقع ہوجائے یا اس کی طرف سے آپ لا پروا ہوجائیں جو فکر اس کی دل میں تھی ختم ہوجائے، تو ان صورتوں میں ممکن ہے کہ آپ فرد مقابل کہ متعلق گمانِ بد میں مبتلا ہوں۔

مذکورہ بالا آیات قراٰنی اور احادیث کریمہ سے واضح ہو گیا کہ بد گمانی ایک ایسا وصف ہے کہ جس کا مرتکب گنہگار اور عذابِ نار کا حقدار ہے نیز یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اس سے بچنا از حد ضروری ہے کیونکہ اس گناہ کا شمار بھی کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے۔

اللہ رب العزت ہمیں اس سے بچنے کی اس کے واسطے کوشش کرنے نیز اس سے دوسروں کو بچانے والا بنائے۔ اٰمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم