اللہ ربّ العزت کی اس بنائی ہوئی دنیا میں انسان بہت سے شہروں میں، بہت سے ممالک کا مشاہدہ کرتا ہے، اللہ  پاک کی قدرت کے نظارے دیکھنے کے لئے دور دراز شہروں کا سفر کرتا ہے، سفر کی مشقتیں برداشت کرتا ہے اور انسان کی فطرت سے ہے کہ وہ تکرار سے اکتا جاتا ہے، اس طرح وہ کسی ملک و شہر میں اگر چند بار چلا جائے تو وہ بالآخر اس شہر سے اکتا جاتا ہے اور آئندہ کچھ نیا دیکھنے کسی اور مقام پر جانے کا ارادہ کرتا ہے، لیکن دنیا میں ایک شہر ایسا بھی ہے کہ اگر وہاں ہزار بار جانے کا موقع ملے، تب بھی انسان بخوشی جاتا، اس سفر کا انسان مدتوں تک انتظار کرتا، اس سفر سے کبھی بیزار نہیں ہوتا، اس سفر کے مسافروں میں شامل ہونے کی آرزو اور تمنا سے بے چین و بے قرار اور اس کی آنکھوں کو غمناک رکھتی ہے، میری مراد میرے اور آپ کے چاند سے بھی حسین و جمیل، بے مثل و بے مثال، دل و جان کے قرار، مدنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا مقدس شہر ِمدینہ ہے، اس شہر کا ادب و احترام ہر عاشقِ رسول کے دل میں ہوتا ہے، عاشق وہاں کے کانٹے کو بھی سینے سے لگاتا ہے، خوشی سے چومتا ہے، اس راہ میں آنے والی چوٹ پر مسکرا دیتا ہے، اس شہرِ مقدس کے، اس کی آب و ہوا کے، اس کی خاکِ پاک کے، وہاں کی سختی پر صبر کرنے کے، وہاں کی نماز کے اور وہاں پر موت آ جانے کے احادیثِ طیبہ میں بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں، آپ بھی جھومتے ہوئے، تڑپتے ہوئے، مچلتے ہوئے مدینہ طیبہ کے فضائل پڑھئے، اللہ ربّ العزت ہم سب کو اس پاک در کی جلد از جلد حاضری کا شرف عطا فرمائے۔آمین

دنیا دیاں سفراں تو بندہ تھک وی تے جاندا اے پر سفر مدینے دا ہر بار بڑا سوہنا

1۔ سرکارِ نامدار،مدینے کے تاجدار، دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ عظمت نشان ہے:اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، مدینہ منورہ کی ہر گھاٹی اور ہر راستے پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(مسلم شریف، صفحہ 714، حدیث 1378، عاشقان رسول کی 130 حکایات، صفحہ 250)

2۔مدینہ طابہ ہے:دل و جان کے قرار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:مدینہ منورہ کو یثرب کہنے والے پر توبہ واجب ہے، مدینہ طابہ ہے، مدینہ طابہ ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد21، صفحہ 116)معلوم ہوا! مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا حرام ہے اور کہنے والا گنہ گار ہے۔

یثرب کہنے کی ممانعت کیوں؟

مدینہ طیبہ کو یثرب کہنے سے چند وجوہات کی بنا پر منع کیا گیا ہے:

1۔ زمانہ جاہلیت کا نام تھا، اس لئے منع فرمایا۔

2۔یثرب ہلاکت وفساد کو کہتے ہیں اور مدینہ منورہ تو خود مطیب و پاکیزہ، اس کی آب و ہوا پاکیزہ، اس کی مٹی شفا، اس لئے یثرب کہنے سے منع فرمایا۔(فتاوی رضویہ، جلد21، صفحہ 119)

3۔وجہ ِتخلیق کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:تم میں سے جس سے ہوسکے وہ مدینے میں مرے، کیوں کہ جو مدینے میں مرے ، میں اس کی شفاعت کروں گا۔(شعب الایمان، جلد 3، صفحہ497، حدیث1482)

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر ِشفاعت نگر کی ہے (حدائق بخشش )

کب تک میں پھروں در در، مرنے بھی دو اب سرور دہلیز پہ سر رکھ کر، سرکار مدینے میں( وسائل بخشش)

4۔شفاعت کی بشارت:حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جس نے مدینہ منورہ کی سختی اور اس کی شدت پر صبر کیا،قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کروں گا۔

(صحیح مسلم،کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینہ، حدیث 1378، احیاء العلوم، جلد 1، صفحہ 739)

راہ جاناں کا ہر ایک کانٹا بھی گویا پھول ہے جو کوئی شکوہ کرے اس کی یقیناً بھول ہے (وسائل بخشش)

5۔ہزار نمازوں سے بہتر:حضور نبیِّ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مسجد ِنبوی میں ایک نماز دس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(قوت القلوب، جلد 2، صفحہ 204)

6۔مدینہ طیبہ میں مسجدِ نبوی کے اندر ایک حصّہ ہے جو ریاض الجنہ کہلاتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں اس کی بھی فضیلت آئی ہے، چنانچہ آقائے دو جہاں، مکے مدینے کے سلطان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے:میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر خوض پر ہے۔

(صحیح مسلم، کتاب الحج، حدیث 1390۔1391)

7۔دجال، طاعون سے محفوظ:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینے کے راستوں پر فرشتے پہرہ دیتے ہیں، اس میں نہ دجّال آئے گا،نہ طاعون۔(صحیح مسلم، کتاب الحج، حدیث 1379،بہار شریعت،حصہ ششم، ص1220)

8۔خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!بے شک مدینہ پاک کے غبار میں ہر بیماری کی شفا ہے۔

(الترغیب والترہیب، فی مکنی المدینہ، صفحہ 416، حدیث 28، اسمائے مدینہ منورہ، صفحہ23)

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے اٹھا لے جائے تھوڑی خاک ان کے آستانے سے

واقعہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ:

میں مدینہ منورہ میں حاضر تھا، کسی بیماری کی وجہ سے میرا پاؤں سوج گیا تھا، ڈاکٹروں نے بتایا : یہ ایک خطرناک بیماری ہے اور انہوں نے علاج سے بھی منع کردیا اور اپنے ہاتھ روک لئے، چنانچہ میں نے حضور نبی آخر الزماں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مقدس و مطہر و مطیب شہر مدینہ طیبہ کی خاک(مٹی)لی اور اسے استعمال کرنا شروع کر دیا، اللہ پاک کے کرم سے کچھ ہی دنوں میں سوجن ختم ہوگئی اور اس مرض سے نجات مل گئی۔

(اسمائے مدینہ منورہ مطبوعہ مکتبہ المدینہ، صفحہ 24)

تو خاکِ مدینہ میرے لاشے پر چھڑکنا پھر ملنا کفن پہ جو ملے ان کا پسینہ(وسائل بخشش)

9۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گا،اللہ پاک اسے خوف میں مبتلا فرمائے گا۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الحج، باب فضل المدینہ، حدیث3730، بہار شریعت، حصہ اول، جلد 6، صفحہ 1219)

سنبھل کر پاؤں رکھنا زائرو شہرِ مدینہ میں کہیں ایسا نہ ہو سارا سفر بیکار ہو جائے

10۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جس نے حج کیا اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ ایسا ہے، گویا میری حیات میں میری زیارت سے مشرف ہوا۔

(سنن دارقطنی، کتاب الحج، باب المواقیت، حدیث 2667،جلد دوم)

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں مرے آقا مرے دلبر مدینے میں

تو وہ شہر جس کے اس قدر فضائل ہوں تو عاشق کیوں نہ اس کا ادب کریں، کیوں نہ وہاں جانے کے لئے تڑپیں، کیوں نہ صبح وشام اس کے ذکر سے اپنے دل کو منور کریں، ہر عاشقِ رسول پر حق ہے کہ وہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم، ان کے شہر اور ان سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا ادب کرے، اس سے محبت رکھے، اس کا تذکرہ کرے اور اپنے دل و دماغ کو اس ذکر سے چین بخشے۔اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مدینہ طیبہ کی با ادب، با ذوق، باشوق، اخلاص سے بھرپور اور ریا سے پاک، حاضری کا شرف عطا کرے اور ایسا جانا نصیب کرے کہ پھر واپس نہ آئیں، وہیں آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قدموں میں جان نکل جائے اور جنت البقیع ہماری آخری آرام گاہ بنے، ہمارا مدفن بنے۔آمین

مجھے ہریالے گنبد کے تلے قدموں میں موت آئے سلامت لے کے جاؤں دین و ایماں یا رسول اللہ