اطلاعات کے مطابق ایک تین سالہ بچے کے والد کا دوست ان کے گھر آیا اور موبائل فون کے کیمرے سے بچے کی تصویر بنانے لگا۔تصویر بنانے سے پہلے وہ کیمرے کی فلیش لائٹ بند کرنا بھول گیااور دس انچ کے فاصلے سے بچے کی تصویر بنائی۔ آدھے گھنٹے بعد بچے کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور والدین نے محسوس کیا کہ بچے کو دیکھنے میں دشواری ہورہی ہے۔بچے کو فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا، جس نے  معائنے کے بعد بتایا کہ کیمرے کی تیز فلیش لائٹ کے باعث ان کا بیٹا ایک آنکھ سے نابینا ہوچکا ہے۔ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ چار سال کی عمر تک بچے کی آنکھ میں قریب سے کیمرے کی فلیش لائٹ پڑنے سے آنکھ کے ریٹینا میں موجود میکیولا (MACULA) شدید متاثر ہوتا ہے جس کے سبب بینائی ضائع ہونے کا بہت زیادہ خدشہ ہوتا ہے اور یہ ایک ناقابلِ علاج مسئلہ ہے۔اس عمر تک بچے کی آنکھ میں میکیولا پوری طرح نشوونما نہیں پاتا اس لئے یہ اس قدر تیز روشنی برداشت نہیں کرسکتا۔ڈاکٹروں نے لوگوں کوہدایت کی ہے کہ چار سال کی عمر سے قبل بچے کی تصاویر بنانے سے پہلے پوری طرح یقین کرلیں کہ ان کے کیمرے کی فلیش لائٹ بند ہے ورنہ ان کا بچہ عمر بھر کے لئے نابینا بھی ہوسکتا ہے۔

پیارے اسلامی بھائیو!موبائل فون کے پیدا کردہ مسائل میں سے ایک موقع بے موقع تصویر بنانے کا شوق بھی ہے۔آج کل چونکہ کم وبیش ہر شخص کے پاس موبائل فون موجود ہوتا ہے لہٰذا جسے جہاں موقع ملتا ہے وہ کسی کی بھی تصویر یا وڈیو بنالیتا ہے چاہے سامنے والا اس پر راضی ہو یا نہ ہو۔یہ شوق اس وقت غیر انسانی روپ دھار لیتا ہے جب کہیں بم دھماکہ،ایکسیڈنٹ یا کوئی اور سانحہ رونما ہو اور موقع پر موجود افراد ہلاک ہونے والوں کی منتقلی اور زخمیوں کی مدد کرنے کے بجائے ان کی تصویر یا وڈیو بنانے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک سنگدلانہ عمل ہے۔ ایسا کرنے والے اگر خدانخواستہ خود کسی ایسے سانحے کا شکار ہوں اور موقع پر موجود افراد ان کی مدد کے بجائے ان لمحات کو محفوظ کرنے میں مصروف رہیں تو ان کے دل پر کیا گزرے گی۔

موبائل فون سے تصویر سازی کے شوق کا ایک اور نقصان مختلف جسمانی عوارض(بیماریوں) کی صورت میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔ مثلاًپیدائش کے فوراً بعد والدین یا دوست احباب کا بچوں کی تصاویر بناکر انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ (Upload) کرنا ایک عام سی بات بنتی جارہی ہے۔ بظاہر تو اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتالیکن مذکورہ واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا کرنا بسا اوقات بہت بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے، بالخصوص اگر کیمرے کی فلیش لائٹ آن ہو۔


سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں فریٹ فارورڈنگ (Freight Forwarding)کا کام کرتا ہوں جس میں بحری جہاز کے کنٹینرز شِپِنگ کمپنی سے کنٹینر کرائے پر لے کر آگے اسے پارٹی کو کرائے پر دیتے ہیں۔کمپنی سے ہم کسی مال کی ایکسپورٹ کے لئے مثلاً 10,000روپے کرائے پرلیتے ہیں، اور پارٹی کو یہی کنٹینر 12,000 روپے میں دیتے ہیں۔ مذکورہ کرائے پر شپنگ کمپنی چاہے دو دن میں بھیجے یاپانچ دن میں، یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہےکہ وہ ہمارے پاس کنٹینر کو پہنچا دے، نیز مال چھوڑنے کے بعد شپنگ کمپنی کا کام ہوتا ہے کہ اس کنٹینر کو کہاں بھیجنا ہے،پارٹی اور ہمارا اب اس کنٹینر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔پارٹی کو جو ہم زیادہ کرائے پر دیتے ہیں،اس میں ہم کنٹینر کی سِیل (Seal) کے اَخْراجات بھی شامل کرتے ہیں کیونکہ ہم کنٹینر کی سِیل کے اَخْراجات شپنگ کمپنی کو الگ دیتے ہیں لیکن پارٹی سے ہم اس سِیل کرانے کےالگ پیسے نہیں لیتے،تو کیا اس صورت میں پارٹی کو جب ہم کنٹینر کرائے پر دیتے ہیں تو کنٹینر کا کِرایہ اور سِیل کے اخراجات ملا کر مثلاً 12,000 روپے میں دے سکتے ہیں، جبکہ ہم نے شپنگ کمپنی سے وہی کنٹینر 10,000 روپے کا کرائے پر لیا ہوتا ہے اورتقریباً 500 روپے میں سِیل کے اخراجات میں دئیے ہوتے ہیں۔

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:پوچھی گئی صورت میں آپ پارٹی کو کنٹینرکا کِرایہ اور اسے سِیل کرنے کے اخراجات کے ساتھ ملاکر کنٹینر کو آگے زیادہ کرائے پر دے سکتے ہیں۔کیونکہ کرائے پر لی ہوئی چیز آگے کرائے پر دے سکتے ہیں،جبکہ اتنے ہی کرائے پر دی جائے جتنے پر لی تھی،یا کم کرائے پر دی جائے اور اگر زیادہ کرائے پر دینا چاہیں تو اس وقت دے سکتے ہیں جب درجِ ذیل تین صورتیں پائی جائیں: ایک:یہ کہ کنٹینر میں کچھ کام کرا دیں۔ دوسری:یہ کہ آپ نے جس جنس کے کرائے پر کنٹینر لیا اس کے خلاف کسی اور جنس کے کرائے پر آگےدیں۔اور تیسری: یہ کہ کنٹینر کے ساتھ کوئی اور چیز بھی کرائے پر دیدیں اور دونوں کا کرایہ ایک ہی مقرر کریں۔([1]) پوچھی گئی صورت میں آپ کی طرف سے سِیل کی صورت میں اضافہ کرنا پایا گیا تو زیادہ کرایہ پر آگے دے سکتے ہیں۔

صَدْرُ الشَّرِیعَہ، بَدْرُ الطَّرِیقہ مُفتی اَمجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی بہارِ شریعت میں لکھتے ہیں:”مُسْتَاجِر(کرایہ دار)نے مکان یا دکان کوکِرایَہ پر دیدیا اگر اُتنے ہی کِرایَہ پردیا ہے جتنے میں خود لیا تھا یاکَم پر جب تو خیر اور زائد پر دیا ہے تو جوکچھ زیادہ ہے اُسے صدقہ کردے ہاں اگرمکان میں اِصلاح کی ہو اُسے ٹھیک ٹھاک کیا ہو تو زائد کا صدقہ کرنا ضرور نہیں یاکرایہ کی جِنْس بدل گئی مثلاً:لیا تھا روپے پر،دیا ہو اشرفی پر، اب بھی زیادتی جائز ہے۔ جھاڑودیکرمکان کو صاف کرلینایہ اِصلاح نہیں ہے کہ زیادہ والی رقم جائز ہوجائے اِصلاح سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جو عمارت کے ساتھ قائم ہو مثلاًپلاستر کرایا یا مونڈیر بَنوائی۔(بہار شریعت،3/124، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم



[1]۔الجوہرۃ النیرہ میں ہے: ”وَاِنْ اَجَّرَھَا بِاَکْثَرَ مِمَّا اسْتَاْجَرَھَا جَازَ ، اِلَّا اَنَّہ اِذَا کَانَتِ الاُجْرَۃُ الثَّانِیَۃُ مِنْ جِنْسِ الْاُوْلٰی لَا یَطِیْبُ لَہ الزِّیَادَۃُ وَیَتَصَدَّقُ بِھَا، وَاِنْ کَانَتْ مِنْ خِلَافِ جِنْسِھَا طَابَتْ لَہ الزِّیَادَۃُ، فَاِنْ کَانَ زَادَ فِی الدَّارِ شَیْئاً کَمَا لَوْ حَفَرَ فِیْھَا بِئْراً اَوْطَیَّنَہَا او اَصْلَحَ اَبْوَابَھَا اَوْ شَیْئاً مِّنْ حِیْطَانِھَا طَابَتْ لَہُ الزِّیَادَۃُ

(الجوہرۃ النیرہ شرح قدوری،کتاب الاجارۃ،1/308،309)


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ نماز میں بہت دیر تک کھانسنے کی نوبت آجائے جس کی وجہ سے تین سُبْحٰنَ اللہ کی مقدار تاخیر بھی ہوجاتی ہو تو ایسی صورت میں کیا سجدۂ سہو وغیرہ کرنا ہوگا؟ سائل:محمدشفیع عطاری(5-E،نیوکراچی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عذر کی بنا پر مثلاً کھانسنے کے سبب بالفرض اگر تین مرتبہ سُبْحٰنَ اللہ کہنے کی مقدار قراءَت یا تَشَہُّد وغیرہ میں سُکُوت ہوجائے یا فرض و واجب کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے تو اس سے نماز پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور اس صورت میں سجدۂ سہو بھی لازم نہیں ہوتا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

الجواب صحیح

عبدہ المذنب ابو الحسن فضیل رضا العطاری عفا عنہ الباری

کتبــــــــــہ

المتخصص فی الفقہ الاسلامی

ابو عبداللہ محمد سعید عطاری مدنی


والد صاحب کی اچانک بیماری، دوا مہنگی اور جیب خالی! یہ سب کچھ ناصر کے حواس گُم کرنے کے لئے کافی تھا، اس نے اپنے سب سے قریبی دوست(Best friend)جمال کو فون کیا کہ میرے ابّو سخت بیمار ہیں اور میرے پاس اس وقت دواکے لئے پیسے نہیں ہیں۔جمال نے ہمت بندھائی: میں کچھ کرتا ہوں۔ ناصر نے تھوڑی دیر بعد دوبارہ فون کیا تو موبائل بند جارہا تھا، بار بار کی کوشش کے بعد بھی رابطہ نہ ہوا تو ناصر سوچنے لگا کہ بڑا دَم بھرتا تھا دوستی کا! آج دوستی نبھانے کا وقت آیا تو جھوٹا دلاسہ دیا پھر فون ہی بند کردیا، سب مطلبی ہوتے ہیں، کوئی کسی کے کام نہیں آتا! خیالات کا ایک سیلاب تھا جو اس کے دل و دماغ سے ٹکرا رہا تھا۔ وہ گھر سے نکلا کہ کہیں اور سے رقم کا انتظام ہوجائے، ناکام کوششیں کرنے کے بعد وہ بوجھل قدموں سے گھر کی طرف چل دیا، گھر پہنچ کر دیکھا تو والد صاحب سکون سے سو رہے ہیں، ان کے سرہانے دوائیوں (Medicines) کا پیکٹ رکھا ہوا ہے، حیرت و خوشی کے ملے جلے جذبات میں اس نے چھوٹے بھائی سے پوچھا: یہ دوائیاں کون لایا؟ ”آپ کے دوست جمال آئے تھے، مجھ سے دوائی کی پرچی مانگی اور تھوڑی دیر بعد یہ دوائیاں دے گئے،“ بھائی نے جواب دیا۔ ناصر کافی فاصلہ طے کرکے جمال کے گھر پہنچا کہ پتا تو چلے کہ ماجرا کیا ہے! پہلے اس کا شکریہ ادا کیا پھر کہا: میں نے بعد میں آپ کو بہت فون کئے مگر فون بند تھا!جمال نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بتایا کہ اِتّفاق سے میرے پاس بھی اس وقت اتنی رقم نہیں تھی لہٰذا میں نے وہی موبائل بیچ دیا اور آپ کے والد صاحب کی دوائی خرید لایا۔ یہ سُن کر ناصر کی آنکھیں بھیگ گئیں کہ میرا دوست مجھ سے اتنا مخلص ہے اور افسوس! میں اس کے بارے میں کیسی کیسی بدگمانیاں کرتا رہا ہوں!

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس فرضی حکایت میں ان لوگوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے جو بات بات پر بدگمانی (بُرے گمان،Mischief) کا شکار ہوجاتے ہیں، مثلاً: *نوکری (Job) سے فارغ ہوگئے تو آفس کے کسی فرد سے بدگُمانی کہ اس نے سازش کی ہوگی *کاروبار میں نُقصان ہوگیا تو قریبی کاروباری حَرِیف سے بدگُمانی کہ اس نے کچھ کروا دیا ہوگا *اجتماعِ ذکر و نعت میں یا دعا مانگتے ہوئے کوئی شخص رو رہا ہے تو بدگُمانی کہ لوگوں کو دِکھانے کے لئے رو رہا ہے *گھر سے کوئی چیز غائب ہوجائے تو آنے جانے والے رشتہ داروں یا ملازموں پر بدگمانی کہ انہوں نے چُرائی ہوگی *کامیابی یا ترقی پر کسی نے حسبِ خواہش مبارک باد (congratulation)نہیں دی تو بدگمانی کہ مجھ سے جلتا (یعنی حسد کرتا) ہے *گورنمنٹ کے کسی ملازم کو خوشحال دیکھ لیا تو بدگمانی کہ اوپر کی کمائی سے عیش کررہا ہے *کاغذات (Papers)نامکمل ہونے کی وجہ سے کسی سرکاری افسر نے کوئی کام کرنے مثلاً شناختی کارڈ، پاسپورٹ یا ویزہ دینے سے انکار کردیا تو بدگمانی کہ مجھ سے رشوت لینا چاہتا ہے *کسی نے توَقَّع کے مطابِق توجّہ نہیں دی، حال چال نہیں پوچھا تو بدگمانی کہ تکبر کرتا ہے *کہیں رشتے کی بات چل رہی تھی وہاں سے انکار ہوگیا تو اپنے کسی رشتہ دار(Relative) سے بدگمانی کہ اس نے کوئی گڑ بڑ کی ہوگی *شوہر کی تَوَجُّہ بیوی کی طرف کم ہوگئی تو ساس سے بدگُمانی کہ اس نے اپنے بیٹے کے کان بھرے ہوں گے *بہو کو نماز کے بعد اَورَاد و وَظائف کرتے دیکھ لیا تو بدگمانی کہ ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے کوئی وظیفہ کررہی ہے *ساس کا بدلا ہوامہربان رویہ دیکھ کر بدگمانی کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے *جس نے قَرض (Loan)لیا اور وہ رَابِطے میں نہیں آرہا تو بدگمانی کہ میرا قرض کھا گیا *جس سے مال بُک کروا لیا وہ مِل نہیں رہا تو فوراً بدگُمانی کہ بھاگ گیا *کسی نے وقت دیا اور آنے میں تاخیر ہوگئی تو بدگُمانی کہ وعدہ کرکے مُکر گیا وغیرہ وغیرہ۔ یہ 15مثالیں(Examples) تو سمجھانے کے لئے دی ہیں ورنہ کیا گھر! کیا دفتر! کیا بازار! کونسی جگہ ہے جہاں بدگمانی کا ناسُور پھیلا ہوا نہیں ہے!

بدگمانی کا شَرْعی حکم صدرُ الشّریعہ ،بدرُالطّریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں:بے شک مسلمان پر بدگُمانی حرام ہے مگر جبکہ کسی قرینہ سے اُس کا ایسا ہونا ثابِت ہوتا ہو تو اَب حرام نہیں،مثلاً کسی کو بھٹی (یعنی شراب خانے) میں آتے جاتے دیکھ کر اُسے شراب خور (یعنی شراب پینے والا) گُمان کیا تو اِس (یعنی بدگُمانی کرنے والے) کا قصور نہیں، اُس (یعنی شراب خانے میں آنے جانے والے) نے مَوضَعِ تُہمت (یعنی تہمت لگنے کی جگہ) سے کیوں اِجتِناب (یعنی پرہیز) نہ کیا۔(فتاویٰ امجدیہ، 1/123)

بدگمانی کا حکم کس وقت لگے گا؟ شارح بخاری علّامہ بدرُالدّین محمودعینی علیہ رحمۃ اللہ الغنِی فرماتے ہیں: گُمان وہ حرام ہے جس پر گُمان کرنے والا مُصِر ہو (یعنی اصرار کرے) اور اسے اپنے دِل پر جمالے، نہ کہ وہ گُمان جو دِل میں آئے اور قرار نہ پکڑے۔ (عمدۃ القاری،14/96،تحت الحدیث:5143) ([1])

بدگمانی کے نقصانات بدگمانی کے انفرادی نقصانات بھی ہیں اور اجتماعی بھی، جن کا تعلّق دنیا سے بھی ہوتا ہے اور آخرت سے بھی! بہرحال بدگمانی سے یہ نقصانات ہوسکتے ہیں: (1)کسی کے بارے میں بدگمانی ہونے اور اسے دل پر جمانے میں چند سیکنڈزبھی نہیں لگتے لیکن اس کی سزا جہنم کا عذاب ہے جسے ہم برداشت نہیں کرسکتے (2)بدگمانی ایک ایسا باطنی (دل کا)گناہ ہے جس کے کرنے سے انسان دیگر گناہوں کی دلدل میں پھنس سکتا ہے جیسے کسی کے عیبوں کی تلاش میں رہنا، غیبت، تہمت، کینہ اور بُہتان میں مبتلا ہوجانا (3)معمولی سی بدگمانی سے شروع ہونے والا جھگڑا قتل و غارت تک پہنچ سکتا ہے جس کا سلسلہ بعض اوقات کئی نسلوں (Generations) تک چلتا ہے (4)بدگمانی محبت و اُلفت کو بُغض و عداوت میں بدل سکتی ہے جس کی وجہ سے معاشرتی تعلّقات میں ایساکھچاؤ (Strained)آجاتا ہے کہ بھائی کی اپنے سگے بھائی سے نہیں بنتی، میاں بیوی ایک دوسرے سے تنگ آجاتے ہیں، ساس بہو میں ٹھن جاتی ہے جس کی وجہ سے زندگی مشکل ہوجاتی ہے اور خاندان بکھر سکتا ہے (5)بدگمانی اگر کسی تحریک، تنظیم یا ادارے میں گھس جائے تو اعتماد کی فضا ختم کردیتی ہے جس سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے (6)بعض اوقات کسی تحریک (مثلاً دعوتِ اسلامی) سے وابستہ اسلامی بھائی کو دوسرے اسلامی بھائی سے کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے اور یہ اُس کا اِنفرادی فعل ہوتا ہے لیکن وہ ساری تحریک سے بدگمان ہوجاتا ہے اور اس تحریک سے ناطہ توڑ لیتا ہے اور مدنی کاموں کے سبب ملنے والا ثواب کا ایک ذریعہ ختم کر بیٹھتا ہے۔

بدگمانی کے8علاج قراٰن و حدیث اور بزرگانِ دین رحمھم اللہ المُبِین کے فرامین کی روشنی میں بدگمانی کے8علاج ملاحَظہ کیجئے: (1)گمانوں کی کثرت سے بچئے، اس سے بدگمانی کا راستہ تنگ ہوگا اور دوسرے کے بارے میں سوچتے ہوئے آپ محتاط (Cautious)رہیں گے۔ (2)بُرے کاموں سے بچئے، اِذَا سَاءَ فِعْلُ الْمَرْءِ سَاءَتْ ظُنُوْنُہُ یعنی جب کسی کے کام بُرے ہوجائیں تو اس کے گُمان بھی بُرے ہوجاتے ہیں۔(فیض القدیر، 3/157) (3)ارشادِ حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے: اپنے بھائی کی زبان سے نکلنے والے کلمات کے بارے میں بدگُمانی مت کرو جب تک کہ تم اسے بھلائی پر محمول(یعنی گمان) کرسکتے ہو۔(درِّمنثور، 7/565) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جتنے دلائل ہم اپنے فعل کو درست ثابت کرنے کے لئے دیتے ہیں اگر اس کا 10فی صد بھی اپنے مسلمان بھائی کے کام کو اچّھا سمجھنے کے لئے سوچیں تو بدگمانی جڑ سے اُکھڑ سکتی ہے، مثلاً کسی اِسلامی بھائی کو اجتماعِ ذکر و نعت میں روتا دیکھ کر بُرا گمان آئے کہ ریاکاری کررہا ہے،یہاںحسنِ ظن بھی کیا جاسکتا ہے کہ یہ خوفِ خدا یا عشقِ رسول میں رو رہا ہے (4)بُری صحبت میں نہ بیٹھیں، روح المعانی میں ہے:صُحْبَۃُ الْاَشْرَارِ تُوْرِثُ سُوْ ءَ الظَّنِّ بِالْاَخْیَارِ یعنی بُروں کی صحبت اچھوں سے بدگُمانی پیدا کرتی ہے۔(روح المعانی، 16/612) (5)حُسنِ ظن (اچھا گمان) کی عادت بنائیں ثواب ملے گا، فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اچھا گُمان اچھی عبادت سے ہے۔(ابو داؤد، 4/387، حدیث:4993) (6) حُسنِ ظَن میں کوئی نقصان نہیں اور بدگمانی میں کوئی فائدہ نہیں، حضرت سیّدنا بکر بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:اگر تمہارا گُمان دُرُست ثابت ہوا تو بھی تمہیں اس پر اجر و ثواب نہیں ملے گا لیکن اگر گُمان غلط ثابت ہوا تو گُناہ گار ٹھہرو گے۔ (حلیۃ الاولیاء، 2/257، رقم:2143) (7)اپنے دِل کوسُتھرا رکھنے کی کوشش کیجئے، حضرت سیّدنا عارف زرّوق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: خبیث گُمان خبیث دِل سے نکلتا ہے۔(حدیقۃ الندیۃ، 2/8) (8)روزانہ دس بار اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھنے والے پر شياطين سے حفاظت کرنے کے لئے اللہ پاک ایک فرشتہ مقرّر کردیتا ہے۔(مسند ابی یعلیٰ، 3/400، حدیث: 4100)

اللہ کریم ہمیں بدگمانی سے بچنے اور مسلمانوں سے حسنِ ظن رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


[1] بدگمانی کے شرعی احکام کی مزید معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کا رسالہ ”بدگمانی“ پڑھ لیجئے۔


سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عام طور پر نابالغ چھوٹے بچے دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں خریدتے ہیں تو کیا نابالغ بچوں کا یہ چیزیں خریدنا درست ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:سمجھ دار نابالغ بچہ اپنے ولی کی اجازت سے اشیاء کی خرید و فروخت کر سکتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ غبنِ فاحش یعنی مارکیٹ ریٹ سے مہنگی چیز نہ خریدی ہو۔صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی بہارِ شریعت میں لکھتے ہیں:”نابالغ کے تصرّفات تین قسم ہیں: نافعِ مَحْض یعنی وہ تصرّف جس میں صرف نفع ہی نفع ہے جیسے اِسلام قَبول کرنا۔ کسی نے کوئی چیز ہِبَہ کی (تحفہ دیا) اس کو قبول کرنا اس میں ولی کی اجازت دَرْکار نہیں۔ ضارِّ مَحْض جس میں خالِص نقصان ہو یعنی دنیوی مَضَرَّت ہو اگرچہ آخرت کے اعتبار سے مفید ہو جیسے صدقہ و قرض، غلام کو آزاد کرنا، زوجہ کو طلاق دینا۔ اس کا حکم یہ ہے کہ ولی اِجازت دے تو بھی نہیں کرسکتا بلکہ خود بھی بالغ ہونے کے بعد اپنی نابالغی کے ان تَصَرُّفات کو نافِذ کرنا چاہے نہیں کرسکتا۔ اس کا باپ یا قاضی ان تصرّفات کو کرنا چاہیں تو یہ بھی نہیں کرسکتے۔ بعض وجہ سے نافع (نفع مند ) بعض وجہ سے ضار (نقصان دہ) جیسے بیع، اِجارہ، نکاح یہ اذنِ ولی (ولی کی اجازت) پر موقوف ہیں۔ نابالغ سے مراد وہ ہے جو خرید و فروخت کا مطلب سمجھتا ہو جس کا بیان اوپر گزر چکا اور جو اتنا بھی نہ سمجھتا ہو اوس کے تَصَرُّفات ناقابلِ اعتبار ہیں۔“(بہارِ شریعت، 3/204، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سنا ہے کہ دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے کیا یہ بات درست ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:تقدیر کی تین قسمیں ہیں:

(1) ”مُبْرَمِ حقیقی“جو کسی دعا یا عمل سے نہیں بدل سکتی۔ (2) ”تقدیر ِمُعَلَّق مشابہ مُبْرَمصُحُفِ ملائکہ میں بھی نہیں لکھا ہوتا ہے یہ کس دعایا عمل سے بدلے گی البتہ خَوَاص اَکَابِر کی اس تک رسائی ہوتی ہے ۔اسی کے متعلق حدیث پاک میں ہے:اِنَّ الدُّعَا یَرُدُّ الْقَضَاءَ بَعْدَ مَا اَبْرَمَیعنی دعا قضائے مُبْرَم (معلق مشابہ مبرم)کو ٹال دیتی ہے۔ (کنز العمال،1/28،جزء ثانی،بالفاظِ متقاربۃ) (3)”تقدیرِ مُعَلَّق مَحْض“یہ قسم صحف ملائکہ میں لکھی ہوتی ہے کہ کس دعا یا عمل سے یہ تقدیر بدل سکتی ہے اس تک اکثر اولیاء کی رسائی ہوتی ہے اِن کی دعا سے اِن کی ہمت سے ٹل جاتی ہے۔ (بہار شریعت، 1/12،حصہ1، مکتبۃ المدینہ ۔المعمتد المستند، ص54)

سُنَنِ ابنِ ماجہ میں ہے۔”عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزِيْدُ فِي الْعُمْرِ اِلَّا الْبِرُّ وَلَا يَرُدُّ الْقَدْرَ اِلَّا الدُّعَاءُحضرت ثوبانرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی اور دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو رد نہیں کرتی۔(سنن ابن ماجہ،1/69،حدیث:90)

حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں:”یعنی دعا کی برکت سے آتی بلا ٹل جاتی ہے دعائے درویشاں رَدِّ بلا۔ قضاء سے مراد تقدیرِ مُعَلَّق ہے یا مُعَلَّق مُشَابَہ بِا لمُبْرَم کہ ان دونوں میں تبدیلی تَرْمِیْمِی ہوتی رہتی ہے تقدیرِ مُبْرَم کسی طرح نہیں ٹلتی۔“(مراٰۃ المناجیح، 3/295)

اِس مسئلہ کی مزید معلومات کے لئے رَئِیْسُ المُتَکَلِّمِیْن مفتی محمد نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی کتاباَحْسَنُ الوِعَا لِآدَابِ الدُّعَاءِبنام ”فضائل ِدعا“ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، صفحہ243تا 248 کا مطالعہ فرمائیے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


ہاتھی والوں  کے ساتھ کیا ہوا ؟

تقریباً 1500 سال پہلے مُلکِ یَمَن اور حَبْشہ پر ’’اَبْرَہَہ‘‘ نامی شخص کی بادشاہَت تھی، وہ دیکھا کرتا تھا کہ لوگ حج کے لئے مکّہ شریف جاتے اور خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں، اُس نے سوچا: کیوں نہ میں یَمَن کے شہر صَنْعاء میں ایک عِبادت خانہ بنواؤں، تاکہ لوگ خانہ کعبہ کی بجائےاس کا طواف کرنے آئیں، چُنانچہ اُس نے ایک عِبادت خانہ بنوادیا۔ ملکِ عَرَب کے لوگوں کو یہ بات بَہُت بُری لگی اور قبیلہ بنی کنانہ کے ایک شخص نے اُس عِبادت خانے میں نجاست کر دی۔ کعبہ شریف کو گرانے کی کوشش اَبْرَہَہ کو جب معلوم ہُوا تو اُس نے غُصّے میں آکر خانہ کعبہ کو گرانے کی قسم کھالی، چُنانچہ اِس ارادے سے وہ لشکر لے کر مکّہ شریف کی طرف رَوانہ ہوگیا، لشکر میں بَہُت سارے ہاتھی تھےاور اُن کا سردار ایک ’’مَحْمود‘‘ نامی ہاتھی تھا جس کا جسم بڑا مضبوط تھا۔ اِنہی ہاتھیوں کی وجہ سے اُس لشکر کو قراٰنِ کریم میں اَصْحٰبُ الْفِیْل یعنی ’’ہاتھی والے‘‘ فرمایا گیا ہے۔ جانوروں پر قبضہ اَبْرَہَہ نے مکّہ شریف کے قریب پہنچتے ہی ایک وادی میں پڑاؤ ڈالا اور مکّہ والوں کے جانوروں پر قبضہ کر لیا جن میں مَدَنی آقا، محمد مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے دادا جان حضرتِ سیّدُنا عبدُ الْمُطَّلِب رضی اللہ تعالی عنہ کے 200 اونٹ بھی شامل تھے۔ پہاڑوں میں پناہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اَبْرَہَہ کے ناپاک اِرادے دیکھ کر مکّہ والوں کو پہاڑوں میں پناہ لینے کا حکم دیا اور اللہ پاک سے خانۂ کعبہ کی حِفاظت کی دُعا کرنے کے بعد خود بھی ایک پہاڑ پر تشریف لے گئے۔ اَبابیلوں کی فوج صُبْح ہوئی تو اَبْرَہَہ نے حملہ کرنے کے لئے لشکر کو روانگی کاحکم دیا، جب مَحْمود نامی ہاتھی کو اٹھایا گیا تو لشکر والے جس طرف بھی اُس کا رخ کرتے چلنے لگتا مگر خانۂ کعبہ کی طرف منہ کرتے تو وہ بیٹھ جاتا، ابھی یہ مُعامَلہ چل ہی رہا تھا کہ اچانک ’’اَبابیل‘‘نامی پرندوں کی فوج سَمُندر کی طرف سے اُڑتی ہوئی لشکر کے سَر پر پہنچ گئی، ہر اَبابیل کے پاس تین سنگریزے (چھوٹے پتّھر) تھے، دو پنجوں میں اور ایک منہ میں، جبکہ ہر سنگریزے پر مرنے والے کا نام بھی لکھا ہُوا تھا، ابابیلوں نے سنگریزے لشکر پر برسانا شروع کردئیے، سنگریزہ جس ہاتھی سُوار پر گِرتا اُس کی لوہے والی جنگی ٹوپی توڑ کر سَر میں گھستا اور جسم کو چیرتا ہوا ہاتھی تک پہنچتا اور ہاتھی کے جسم میں سوراخ کرتا ہوا زمین پر گِر جاتا، یوں پورا لشکر ہلاک ہوگیا اور ایسے ڈھیر ہوگیا جیسے جانوروں کا کھایا ہوا بھوسہ ہوتا ہے۔جس سال یہ عذاب نازل ہوا بعد میں اسی سال رَحْمت والے آقا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی وِلادت ہوئی۔(ماخوذ از صراط الجنان، 10/827۔ عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص224)


شرکتِ عمل میں کیا برابر کا وقت دینا ضروری ہے؟

کیا فرماتےہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہم چار اسلامی بھائیوں نے پراپرٹی ڈیلنگ کا کاروبار شروع کیا ہے سب نے دفتر میں برابر مال لگایا ہے اور ماہانہ دفتری اخراجات بھی برابری کی بنیاد پر ہوں گےاور کمیشن بھی برابر تقسیم ہو گا مگر ہمیں وقت کے حوالے سے رہنمائی درکار ہے کہ کیا کام کے لئے چاروں کا برابر وقت دینا ضروری ہے یا کوئی کمی بیشی کی جا سکتی ہے ؟

سائل:محمد خرم عطاری(محلہ یوسف آباد، وہاڑی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

دریافت کی گئی صورت شرکتِ عمل(1) (اس کی وضاحت حاشیے میں پڑھئے) کی ہے اور شرکتِ عمل میں کام میں برابری شرط نہیں تو وقت،جس میں کام کا وقوع ہو گا، اس میں بھی برابری لازم نہیں ہو گی لہٰذاآپ اگر بعض کے لیے کم وقت اور بعض کے لیے زیادہ وقت دینا طے کرلیں تو اس میں حرج نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبــــــــــــــــــــــہ

محمد ہاشم خان العطاری المدنی

-----------------------------------------

(1)شرکت بالعمل یہ ہے کہ دو کاریگر لوگوں کے یہاں سے کام لائیں اور شرکت میں کام کریں اور جو کچھ مزدوری ملے، آپس میں بانٹ لیں۔(بہارشریعت،2/505)


تعزیت سے متعلق احکام

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں کہ (1)تین دن بعد تعزیت کا حکم کیا ہےمکروہِ تنزیہی یا تحریمی؟ (2)کلماتِ تعزیت کیا ہیں ۔کیا کلماتِ دعاء اور صرف یہ کہنا آپ کی والدہ کا پتا چلا اللہ پاک مغفرت فرمائے یہ کلماتِ تعزیت ہیں یا نہیں ؟(3)تعزیت کا مقصد کیا ہے اور یہ کیوں کی جاتی ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:(1)تعزیت کا وقت وفات سے تین دن تک ہے افضل یہ ہے کہ پہلے ہی دن تعزیت کی جائے۔ البتہ جس شخص کو فوتگی کا علم نہ ہو تو وہ بعد میں بھی تعزیت کر سکتا ہے۔باقی لوگوں کے لئے تین دن([1])بعد تعزیت کرنا مکروہِ تنزیہی ہے۔([2])

سیّدی اعلیٰ حضر ت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں: ”پہلے ہی دن ہونا بہتر و افضل ہے فی الدر المختار اَوَّلُہَا اَفْضَلُھَا یعنی ایام تعزیت“ یعنی تعزیت کے ایام میں سب سے افضل پہلا دن ہے۔(فتاویٰ رضویہ،9/395)

(2)تسلّی اور دُعا دونوں طرح کے الفاظ تعزیت کے کلمات کہلاتےہیں۔ ([3])تعزیت کاطریقہ بیان کرتےہوئے صدر الشَّرِیعہ بدرُ الطریقہ مفتی محمد امجد علی اَعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اِرشاد فرماتے ہیں:”تعزیت میں یہ کہے، اللہ تَعَالٰی میّت کی مغفرت فرمائے اور اس کو اپنی رحمت میں ڈھانکے اور تم کو صبر روزی کرے اور اس مصیبت پر ثواب عطا فرمائے۔ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے اِن لفظوں سے تعزیت فرمائی:لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَاَعْطٰی وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّیخدا ہی کا ہے جو اُس نے لیا دیا اور اُس کے نزدیک ہرچیز ایک میعادِمقرر(وقتِ مقرر)کے ساتھ ہے۔“ (بہار شریعت، 1 /852، حصہ4،مکتبۃ المدینہ)

مُفسِّرِ شَہِیْر حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:”تعزیت کے ایسے پیارے الفاظ ہونے چاہئیں جس سے اس غمزَدہ کی تسلی ہوجائے یہ الفاظ بھی کتبِ فقہ میں منقول ہیں۔فقیر کا تَجْرِبَہ ہے کہ اگر اس موقع پر غمزدوں کو واقعاتِ کربلا یاد دلائے جائیں اور کہا جائے کہ ہم لوگ تو کھا پی کر مرتے ہیں وہ شاہزادے تو تین دن کے روزہ دار شہید ہوئے تو بہت تسلی ہوتی ہے۔“

(مراٰۃ المناجیح، 2/507)

(3) تعزیت کا بنیادی مقصد لَوَاحِقِیْن کے غم میں شریک ہو کر اُنہیں حوصلہ دینا اور انہیں صبر کی تلقین کرنا ہے۔تعزیت مَسْنُوْن عمل ہے اور اگر قریبی رشتہ ہوتو صِلَۂ رَحمی کے تقاضے کے پیشِ نظر تعزیت کی اَہْمِیَّت مزید بڑھ جاتی ہے یونہی حقِّ پڑوس اور حقِّ رفاقت یا دوستی یا ساتھ کام کرنا وغیرہ وہ تعلقات ہیں جن میں تعزیت کرنا اور لَوَاحِقِیْن کو حوصلہ دینا اِنتہائی اَہَم عمل ہے۔اس عمل سے ایک طرف رشتہ داروں یا ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والوں سے تعزیت کرنے ،تسلِّی دینے اور میت کے لئے دُعا کرکے لَوَاحِقِیْن کے دل میں خوشی داخل کرنے سے لَوَاحِقِیْن پر پہاڑ جیسے صَدْمَہ کا بوجھ کم ہوتاچلا جاتا ہے۔ تو دوسری طرف تعزیت کرنے والا خودغرضی اور مطلب پرستی کا شکار نہیں ہوتاکیونکہ جو انسان اپنے رشتہ داروں، دوست احباب اور پڑوسیوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتا ہے وہ مِلَنْسار کہلاتا ہے اور مِلَنْسار ہونا اَخلاقِیات میں ایک اچھا وصف ہے۔ فیضُ القدیر میں ہے: امام نَوَوِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں کہ تعزیت کا مطلب یہ ہے کہ صبر کی تلقین کی جائے اور ایسی باتیں ذکر کی جائیں جو میت کے لَوَاحِقِیْن کوتسلی دیں اور اُن کے غم اور مصیبت کو ہلکاکریں۔(فیض القدیر، 6/232)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


[1]۔۔وَاَوَّلُهَا اَفْضَلُ وَتُكْرَهُ بَعْدَهَا اِلَّا لِغَائِبٍ(درمختار مع ردالمحتار، 3/177)

[2]۔۔ ردالمحتار میں ہے: ”وَالظَّاهِرُ اَنَّهَا تَنْزِيْهِيَّة ٌ “( ردالمحتار، 3/177)

[3] ۔۔ تَصْبِيْرهم وَالدُّعَاء لَهُمْ بِهٖ “ (ردالمحتار، 3/174)


استاذشاہد کلاس روم میں داخِل ہوئے تو بہت خوش نَظَر آرہے تھے جسے کچھ طلبہ نے نوٹ کرلیا۔استاذشاہد کچھ دیر تک وائٹ بورڈ پر سبق سمجھاتے رہے پھر کتاب بند کرکے اطمینان سے کرسی پر بیٹھ گئے، حسّان استاذصاحب! کیا بات ہے آپ آج بہت خوش نظر آرہے ہیں؟ استاذشاہد جی ہاں! اس کی ایک بڑی وجہ ہے، پہلے بتائیے کہ یہ مہینا کون سا ہے؟ کئی طلبہ کے منہ سے ایک ساتھ نکلا: اگست، استاذشاہد اب یہ بتائیے کہ اس مہینے میں کون سا اہم واقعہ ہوا تھا؟ سب طلبہ خاموش رہے کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دیں، استاذشاہد اس مہینے میں ہمارا پیارا ملک پاکستان آزاد ہوا تھا اور یہ مہینا شروع ہوتے ہی مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ مزمل پاکستان کب آزاد ہوا تھا؟ استاذشاہد آج سے71سال پہلے 14اگست 1947ء کو ہمارا ملک آزاد ہوا تھا۔ حسنین استاذصاحب! ہمارا ملک تو بہت پہلے آزاد ہوچکا ہے تو ہم خوشی اب کیوں منارہے ہیں؟ استاذشاہد بےشک ملک کئی سال پہلے آزاد ہوچکا ہے لیکن بعض خوشیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جب وہ تاریخ اور دن لوٹ کر آتے ہیں تو اللہ تعالٰی کی وہی نعمت ملنے کا احساس ہمارے اندر ایک سوچ پیدا کردیتا ہے کہ ہم پہلے کیا تھے اور کس حالت میں تھے؟ اور اب کتنی اچھی حالت میں ہیں اس پر ہم اللہ پاک کا خوب خوب شکر ادا کرتے ہیں اپنے گھروں اور گلی محلّوں کو جھنڈوں اور جھنڈیوں سے سجاتے ہیں، اپنے کپڑوں پر مختلف بیج لگاتے ہیں۔ طاہر جھنڈے لگانے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ استاذشاہد ہر طرف سبز پرچم اور جھنڈیاں لگا کر ملک سے محبت کرنے کا اور ایک ملت اورایک قوم ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح جھنڈے لگانے میں ہم اکٹّھے ہیں اسی طرح مشکل وقت آنےپر پوری قوم اکٹّھی رہے گی اور کوئی دشمن ہمارے ملک پر حملہ کرے گا تو ہم سب مل کر بہادری کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں گے اور وقت آنے پر اپنی جان بھی قربان کردیں گے مگر اس ُملک کی عزّت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ حسّان ایک سوال میں بھی پوچھنا چاہتا ہوں، استاذشاہد ضرور پوچھئے! حسان ہم ہر سال 14اگست مناتے ہیں اور ہر سال اچھے ارادے بھی کرتے ہیں،کیا ابھی تک ہم اچھّے نہیں بنے؟استاذشاہد شاباش! آپ کا سوال بہت اچّھا ہے، ہم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ اچّھا بننے کی کوشش کرتا رہے اگر یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ ہم اچھّے ہوگئے ہیں تو اپنی خامیوں اور غلطیوں کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں گے۔ خالد اس کے علاوہ اور کیا کام کرنے چاہئیں؟ استاذشاہد ہمیں خاص طور پر اپنے ملک اور قوم کی سلامتی کے لئے دعا کرنی چاہئے، اور خوب دل لگا کر اپنی پڑھائی پر توجہ دینی چاہئے تاکہ پڑھ لکھ کر اپنے ملک اور قوم کا نام پوری دنیا میں روشن کرسکیں، میں نے پرنسپل صاحب سے بات کرلی ہے کل تک پورے اسکول کو سبز ہلالی پرچموں اور جھنڈیوں سے سجادیا جائے گا۔ حسنین کل ہماری گلی میں جھنڈیاں لگ گئی ہیں اور کچھ گھروں پر جھنڈے بھی نَظَر آرہے تھے، استاذصاحب! مجھے وہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا اور بہت خوشی ہورہی تھی، استاذشاہد ملک کی آزادی پر ہر ایک شخص کو ضرور خوش ہونا چاہئے کیونکہ اس کی آزادی ہماری آزادی ہے، اس کی عزّت ہماری عزّت ہے! تو پھر آپ سب طَلَبہ اپنے گھروں پر جھنڈا کب لگائیں گے؟ آج ہی لگائیں گے۔ یہ کہتے ہوئے سب طلبہ کے چہروں پر خوشی اور آواز میں اپنے ملک کے لئے کچھ کر گزرنے کا پختہ ارادہ جھلک رہا تھا۔


کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ میرا بھائی درزیوں کا کام کرتا ہے،گاہَک سوٹ کے حساب سے کپڑا دے کر جاتے ہیں ،اوروہ اپنی کاریگری سے کاٹ کر اس میں سے کچھ نہ کچھ کپڑا بچا لیتا ہے،اور بعض اوقات ایک ہی گھر کے کئی جوڑے ایک ہی تھان سے ہوتے ہیں ،اگر ان کو احتیاط سے کاٹا جائے توان سے زیادہ کپڑا بچ جا تا ہے جو بآسانی استعمال میں لایا جا سکتا ہےیعنی اس سے چھوٹے بچوں کا ایک آدھ سوٹ بن جاتا ہے، کیا یہ بچا ہوا کپڑا ہم اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں یا نہیں ،برائے کرم شرعی رہنمائی فرمائیں؟سائل:اکبر علی لودھینیو بہگام ،گوجر خان ضلع راولپنڈی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صورتِ مسئولہ میں آپ کا بھائی اجیرِ مشترک(1)(اس کی وضاحت حاشیے میں پڑھئے) ہے ،اور اجیرِ مشترک کے ہاتھ میں لوگوں کی چیز امانت ہوتی ہے،لہذا سوٹ سینے کے بعد جو قابلِ اِنتفاع (جس سے فائدہ اٹھایا جاسکے)کپڑا بچ جائے ،تو وہ بھی آپ کے بھائی کے ہاتھ میں امانت ہے،اسکا حکم یہ ہے کہ مالک کو واپس کر دیا جائے ،مالک کی اجازت کے بغیر اپنے استعمال میں لانا ناجائز و حرام ہے ،ہاں !اگر مالک اسکے استعمال کی اجازت دیدےیا وہ قابلِ انتفاع نہیں بلکہ بالکل معمولی مقدا ر میں ہے جیسے کترن،تو اسکے استعمال میں حرج نہیں لیکن کَترَن سے مراد بہت باریک کترن ہے ، یہ نہیں کہ آدھے گز کو کَترَن کا نام لے رکھ لیا جائے۔

وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبــــــــــــــــــــــہ

ابوالصالح محمد قاسم القادری

22محرم الحرام1438ھ/24اکتوبر 2016ء


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ (1)مسجد کی انتظامیہ محفلِ میلادُ النبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے اور دیگر محافل کے لیے جو چندہ اکٹھا کرتی ہے اس میں سے محفل کے اَخراجات کے بعد جو چندہ بچ جائے اسے مسجد کے پیسوں میں جمع کرسکتی ہے یا نہیں؟ (2)اگر محفل کے لئے جمع کیا گیا چندہ کم پڑجائے تو کیا مسجد کے پیسوں سے اس کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ جبکہ ہمارے ہاں عام طور پرمحافل کے لیے الگ سے چندہ کیا جاتا ہے، مسجد کے چندے سے محافل نہیں کی جاتیں ۔سائل:محمد الیاس عطاری (مرکزالاولیالاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

(1)اس باقی ماندہ ( یعنی باقی بچے ہوئے)چندے کو اس طرح مُطلقاً مسجد کے پیسوں میں جمع کرنا جائز نہیں بلکہ اس طرح کے چندے میں کچھ تفصیل ہوتی ہے جو درج ذیل ہے کہ اولاً جن لوگوں نے یہ چندہ دیا تھا ان کو حصَۂ رَسد کے مطابق واپس کرنا فرض ہے یا وہ جس کام میں کہیں اس میں لگا دیا جائے، اُن کی اِجازت کے بغیر کسی دوسرے کام میں اِستعِمال کرنا حرام ہے اور اگر وہ فوت ہوچکے ہوں تو ان کے ورثا کو واپس کیا جائے اور اگر چندہ دینے والوں کا عِلم نہ ہو یا یہ معلوم نہ ہوسکے کہ کس سے کتنا لیا تھا تو جس کام کے لئے چندہ لیا تھا اسی طرح کے دوسرے کام میں اِستعمال کریں اور اگر اس طرح کا دوسرا کام نہ ملے تو کسی فقیر کو دیدیا جائے یا مسجد و مدرسہ میں خرچ کر دیا جائے۔

حصَۂ رَسد سے مراد یہ ہے کہ مثلاً 8 افراد نے 100، 100 روپے اور 4 افراد نے50، 50 روپے چندہ دیا، اب اس 1000 روپے میں سے 600 روپے استعمال ہوگئے اور 400 بچ گئے تو 100 روپے دینے والوں میں سے ہر ایک کو 40 روپے اور 50 روپے دینے والوں میں سے ہر ایک کو 20 روپے واپس کرنے ہونگے۔

اِس صورتِ حال سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ محفل کے لیے چندہ کرتے ہوئے لوگوں سے اس طرح اجازت لے لی جائے کہ محفل سے جو پیسے باقی بچ جائیں گے وہ ہم مسجد کے چندے میں شامل کر لیں گے۔ اگر چندہ دینے والے اس کی اجازت دیدیتے ہیں تو پھر باقی رہ جانے والی رقم کو آپ مسجد کے چندہ میں شامل کر سکتے ہیں کہ ایک کام کے لئے دیئے ہوئے مال میں سے باقی بچ جانے والے مال کو کسی دوسرے کام میں صَرف(خرچ) کرنے کا وکیل بنانا جائز و درست ہے ۔

یہاں اگرچہ صراحتاً باقی بچ جانے والے چندے کو دوسرے کام میں صرف کرنے کا تذکرہ نہیں لیکن چونکہ سوال میں مذکور کام مختلف مہینوں میں ہونگے تو دلالۃً یہی سمجھ آتا ہے کہ ہر پہلے کام سے بچ جانے والی رقم دوسرے کام میں صَرف (یعنی خرچ) ہوگی اور یہاں اس کی اجازت دی گئی ہے۔

(2)پوچھی گئی صورت میں مسجد کا چندہ محفل کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں کہ اس صورت میں جو چندہ مسجد کے لئے جمع کیا گیا ہے وہ صرف مسجد کی ضروریات و مَصَالح پر ہی خرچ ہوسکتا ہے، کسی دوسرے کام محفل وغیرہ میں خرچ کرنا ناجائز و گناہ ہے۔

وَاللہُ  اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم