یہی آرزو ہے کہ تعلیم قرآن عام ہوجائے

ہرایک پرچم سے اونچا پرچم اسلام ہوجائے

قرآن مقدس کی عظمت و رفعت کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ رب تعالی کا کلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے ۔

یہ کتاب نوع بنی آدم کے لیے منارہ نور و ہدایت کا سرچشمہ ہے خصوصاً ان پاک باز افراد کے لیے جو دولت ایمان سے مالامال ہیں اور یہ اللہ تعالی کی لٹکتی ہوئی وہ رسی ہے جو اس رسی کو جتنا مضبوطی سے پکڑے گا اتنا ہی اس کا ایمان و عمل مضبوط ہوگا۔

اب اس کو مضبوطی سے پکڑنے کے چند طریقے ہیں :

اس کو پڑھنا ، پڑھانا ، جو پڑھا ، پڑھایا اس پر عمل کرنا ، اس کی تعلیمات کو عام کرنا وغیرہ

حدیث پاک میں جہاں متعلم( قرآن مقدس پڑھنے والے ) کے فضائل بیان ہوے وہیں معلم (قرآن مقدس پڑھانے والے ) کے بھی فضائل ہوئے ہیں ۔

قاری و مقری کے لیے یہ فضیلت کیا کم ہے کہ اللہ تعالی جل وعلا نے طوی کی مقدس وادی میں موسی علیہ السلام سے کلام کرنے کے لیے جس درخت کو منتخب فرمایا تھا اور اس کو ایک نوعیت کا شرف عطا فرمایا تھا وہی شرف ان دونوں کو ایک بار نہیں دن میں بار بار نصیب ہوتا ہے اسی لیے تو بزرگ فرماتے ہیں کہ جب تم اللہ تعالی سے باتیں کرنا چاہو تو قرآن مقدس پڑھنا شروع کردو ، یقیناً یہ بہت بڑی دولت ہے جو امت محمدیہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو عطا کی گئی ہے۔

حدیث پاک میں متعلم و معلم دونوں کو ” خیرکم “کی نوید جانفزا سنائی گئی ہے کیوں کہ جہاں قرآن مقدس پڑھنا سرمدی و ابدی نجات کا پروانہ ہے وہیں اس کو پڑھانا بھی بے شمار حسنات کا گنجینہ ہے ، احادیث کریمہ میں قاری و مقری کے بہت سارے فضائل بیان ہوے ہیں بطور نمونہ چند حاضر خدمت ہے ملاحظہ ہو ۔

حدیث موقوف ہے : عن عاصم بن کلیب عن ابیہ قال :سمع علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ ضجة ناس فی المسجد یقرٔون القرآن و یقرٔون فقال طوبی لھؤلاء کانوا احب الناس الی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم (رواہ الطبرانی )

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے مسجد میں کچھ لوگوں کی آواز سنی جوخود بھی قرآن پاک پڑھ رہے تھے اور دیگر افراد کو بھی پڑھا رہے تھے تو آپ نے فرمایا : خوش خبری ہو ان کے لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ایسے لوگ یعنی قرآن مقدس پڑھنے اور پڑھانے والے بہت زیادہ محبوب تھے ۔

اس سے ہمیں سمجھ میں آتا ہے کہ آج بھی کوئی صاحب ایمان قرآن پڑھتا اور پڑھاتا ہے تو یقیناً رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا وہ محبوب ہے ۔

دوسری حدیث پاک :

عن سعد رضی اللہ تعالی عنہ :قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم خیرکم من تعلم القرآن و علمہ ، قال اخذ بیدی فاقعدنی مقعدی ھذا اقرء۔ ( رواہ البخاری و ابن ماجہ )

آقا علیہ الصلوہ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو خود قرآن پاک سیکھتا ہے اور اوروں کو بھی سکھاتا ہے۔ حضرت عاصم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت مصعب رضی اللہ تعالی نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ کو اعلی مقام پر بٹھایا اور فرمایا :یہ سب سے بڑے قاری ہیں ۔

کتنا خوش بخت و عالی مقدر ہے وہ انسان جو ان دونوں صفتوں سے متصف ہو یعنی جو متعلم بھی رہا ہو اور قرآن کی تعلیمات کو عام کرنے کے خاطر اوروں کو بھی تعلیم دے رہا ہو ، ایمان سے کہیے تو وہ صرف پڑھا نہیں رہا ہے بلکہ نونہال نسل کی روحوں میں عرفان حق کے جلوے اتار رہا ہے۔