عاشقانِ رسول  کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ملک فیصل گلزار اعوان سے ملاقات کی ۔دورانِ ملاقات انہیں حافظ آباد تعینات ہونے پر مبارک باد دی اور پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔

اس موقع پر ذمہ دار اسلامی بھائی نے ملک فیصل گلزار اعوان کو دعوت اسلامی کے شعبہ FGRF کا تعارف کروایا اور اس شعبے کے ذریعے دنیا بھر میں ہونے والے فلاحی کاموں کے حوالے سے بریف کیا جس پر انہوں نے دعوت اسلامی کی دینی و فلاحی خدمات کو خوب سراہا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔(رپورٹ:شعبہ رابطہ برائے شخصیات ڈسٹرکٹ حافظ آباد،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


پچھلے دنوں  ڈسٹرکٹ کورنگی ماڈل ٹاؤن ملیر سعودآباد کے ذمہ داران وعاشقان رسول نے صحرائے مدینہ فیضان ِمدینہ میں یوم تعطیل اعتکاف کیا۔

اس دوران شعبہ مدنی کورسز کے سٹی ذمہ دار محمد صابر عطاری نے شرکا کو 12دینی کام کورس کروایا اور انہیں اپنے اپنے وارڈ/یوسی/ٹاؤن میں عملی طور پر 12دینی کاموں میں عملی طور پر شمولیت اختیار کرنے کا ذہن دیا۔(رپورٹ :محمد صابر عطاری شعبہ مدنی کورسز کراچی سٹی ذمہ دار،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


6ستمبر2023ء  بروز بدھ دعوتِ اسلامی کے تحت مختلف شعبہ جات کے ذریعے ہونے والے دینی و فلاحی کاموں کا فالو اپ لینے کے لئے پاکستان مجلسِ مشاورت کی نگران اسلامی بہن نے ذمہ داران کے ہمراہ مصریال روڈ، راولپنڈی کیمپس دارالمدینہ اسلامک اسکول سسٹم کا وزٹ کیا۔

اس موقع پر کیمپس کے اسٹاف کا مدنی مشورہ ہوا جس میں اسٹاف کی اخلاقی تربیت کے لئے نگرانِ پاکستان مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے بیان کیا جس میں انہوں نے بچوں و بچیوں پر شفقت کرنے کے حوالے سے مدنی پھول دیئے ۔

بیان کے اختتام پر نگرانِ پاکستان مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے 8 دینی کاموں میں عملی طور پر شرکت کرنے کی ترغیب دلائی اور دیگر مدنی پھولوں سے نوازا ۔


8ستمبر 2023ء   کو دعوت اسلامی کے شعبہ مدنی کورسز کے تحت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں مدنی مشورہ منعقد ہوا جس میں کراچی سٹی وڈسٹرکٹ کے شعبہ ذمہ داران نے شرکت کی ۔

نگران شعبہ قاری سعید عطاری نے شعبے کے سابقہ دینی کاموں کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیا اور آئندہ کے لئے اہداف(ٹاسک)دئیے نیز شعبےکے دینی کاموں کو مزید مضبوط کرنے کی ترغیب دلائی اور اپنے جدول میں خصوصیت کے ساتھ 12 دینی کام کو لازمی شامل کرنے کا ذہن دیا۔(رپورٹ :محمد صابر عطاری شعبہ مدنی کورسز کراچی سٹی ذمہ دار،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


امتِ مسلمہ تک دینِ اسلام کی تعلیمات پہنچانے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت 5 ستمبر 2023ء  بروز منگل صوبہ پنجاب کی گجرات ڈویژن آن لائن مدنی مشورہ ہواجس میں صوبہ پنجاب کی نگران اور گجرات ڈویژن و ڈسٹرکٹ کی نگران اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

ذمہ دار اسلامی بہنوں کی تربیت و رہنمائی کے لئے نگرانِ پاکستان مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے بیان کیا اور مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں سے گجرات ڈویژن میں ہونے والے 8 دینی کاموں کے اہداف کا جائزہ لیا ۔

اس کے علاوہ نگرانِ پاکستان مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے سافٹ ویئر انٹری اور تقرریاں مکمل کرنے کے حوالے سے اسلامی بہنوں کو ترغیب دلائی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔


استاد اور شاگرد کے درمیان بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اگر ہم اسلامی نظام کے اغراض و مقاصد پر نظر کریں تو ان میں سے تعمیر کردار ایک نمایاں مقصد ہے۔ اور کردار کی تعمیر استاد جیسی شخصیت ہی سرانجام دیتی ہے۔ آیئے قرآن وسنت روشن اور بزرگان دین کے طرز عمل سے شاگرد کے حقوق جاننے کی کوشش کرتے ہیں:

1۔ طلبہ پر شفقت: استاد کو طلبہ پر شفقت اور محبت والا رویہ رکھنا چاہیے ایک استاد بہت شفیق اور مہربان ہوتا ہے بلکہ استاد مصائب اور مشکلات کا سہارا بنتا ہے۔ امام یوسف رحمۃُ اللہِ علیہ کے لیے امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ نے ان کے گھریلو مسائل کی وجہ سے ان کے لیے وظیفہ مقرر فرمایا ۔

2۔ طلبہ کے درمیان مساوات: اساتذہ کی نگاہ میں تمام طلبہ یکساں ہونے چاہیں اور امیر غریب طلبہ میں فرق نہیں کرنا چاہیے ۔ بنو عباس کے خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹوں کو اما م مالک نے عام بچوں کے پاس بیٹھ کر پڑھنے کا حکم دیا جبکہ خلیفہ نے ان کو گھر میں اگر تعلیم دینے کی گزارش کی لیکن امام مالک نے رد کر دی ۔

3۔ استاد کا وسیع مطالعہ ہونا:استاد کو اپنے مضمون پر وسیع مطالعہ اور مکمل عبور حاصل ہونا چاہے ۔ حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہُ عنہ کے نزدیک عالم وہ ہوتا ہے جو طالب علم بھی ہو۔

4۔با کردار استاد: استاد کو بلند کردار والا ہونا چاہئے۔ قرآن حکیم میں اللہ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲) ترجمۂ کنزالایمان : اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ۔ (پ 28، الصف:2)

5۔ طالب علم سے دلی تعلق: ایک استاد اپنے طالب علم کو بہت یاد رکھتا ہے۔ ایک مرتبہ ضحاد بن ابی سلیمان کوئی طویل سفر کر کے آئے۔ بیٹے نے واپسی پر پوچھا آپ نے سفر پر کسے یا د رکھا ؟ فرمایا ! اپنے شاگر د نعمان (امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ) کو ۔الله پاک ہمیں علم نافع عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


استاد و شاگرد کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ استاد جس قدر محنتی اور مخلص ہو نگے اسی قدر قوم کو فابل ، ہونہار، مستقل مزاج اور وطن سے محبت۔ کرنے والے افراد مہیا ہونگے ۔کہتے ہیں کہ استاد در اصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا انہیں کے سپرد ہے اخلاقی تمدنی اخروی نیکیوں کی چابی اور شاگرد کی ترقی، استاد کی محنت سے وابستہ ہے اپنی اہم ذمہ داریوں کی وجہ سے استاد پر شاگرد کے بعض حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سے بعض پڑھیے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے۔

1۔ محبت و شفقت کرنا :استاذ پر شاگرد کا ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ شاگرد کے ساتھ محبت اور شفقت بھرے انداز سے پیش آئے جیسا کہ امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: استان شا گردوں پر شفقت کرے اور انہیں اپنا بیٹوں جیسا سمجھے ۔ (احیاء العلوم مترجم ،ج 3، ص 90 ،1 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

2۔آسان انداز میں سمجھانا : استاد کو چاہیے کہ شاگرد کو سبق یا کوئی کام سمجھانا ہو تو بالکل آسان انداز میں سمجھائے تاکہ وہ اس سے جلد ہی عملی زندگی میں بروئے کار لا سکے۔

3۔ صلاحیتوں کو ابھارنا :استاد شاگرد کی صلاحیتوں کو ابھارے اور اس کے اندر نئی مہارتیں ۔ (Skills) پیدا کرے تاکہ قوم کو ماہر قابل اور ہو نہار فرد مہیا ہو سکیں۔

4۔ حسین اخلاق کا پیکر بنانا:استاد کو چاہیے کہ شاگرد میں بد اخلاقی کی جڑوں کو اکھاڑ کر اس کو حسین اخلاق کا پیکر بنائے تاکہ ایک باکردار معاشرہ تشکیل پا سکے۔

5۔ باطن کو پاکیزہ کرنا: استاد شاگرد کے ظاہر کو پاکیزہ کرنے کے ساتھ ساتھ باطن کو حسد، ریا کاری ، بغض وکینہ ، شما تت وغیرہ افعا ل رذیلہ سے پاک کرے کیونکہ آقا علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: دین کی بنیاد پا کی ہے (جمع الجوامع،4/ 115، حدیث:10624)

6۔بیمار ہونے پر عیادت : اگر کوئی شاگرد بیمار ہو جائے تو سنت کے مطابق عیادت کر کے بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب لوٹیے۔

7۔غم خواری کرنا ہے: اگر کسی شاگرد کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے مثلاً اس کے حقیقی والد یا کسی کی وفات ہو جائے تو حقوق مسلم کا لحاظ کرتے ہوئے تعزیت کیجئے اور ثواب دارین حاصل کیجئے۔

8۔ فکر آخرت : فکر آخرت سے غفلت باعث ہلاکت ہے لہذا استاد گا ہے بگا ہے شاگرد کو فکر آخرت کی بھی ترغیب دلا تا ر ہے اور انہیں اپنے ہر ہر فعل کا محاسبہ کرنےکا ذہین دیتا رہے ۔

9۔ تربیت کرنا : استاد اور شاگرد کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے لہذا استاد کو چاہیے کہ اپنے شاگرد کی بہترین تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا معیار بلند کرنے کی تجاویز دیتا ر ہے۔

استاد اپنے شاگرد کے لئے کامیابی اور استقامت کی دعا کر کے دوسرے مسلمان کے حق میں دعا کرنے کا ثواب حاصل کرے۔الله پاک ہمیں شاگردوں کے حقوق ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


اس بات میں کوئی شک نہیں کہ استاد کا ادب اور اطاعت ہی شاگرد کو دنیا و آخرت کامیاب ہونے کا ذریعہ ہے۔ مگر استاد پربھی کچھ ذمہ داریاں ہیں جن کی وجہ سے طالب علم کامیابی کے مراحل طے کر پائےگا اور وہی شاگرد کے حقوق کہلاتے ہیں کہ جب تک کسی چیز کا حق ادا نہ کیا جائے تو پھر اس سے اچھے نتائج کی توقع رکھنا حماقت ہے ، اچھا استا د ہی قوم کا بہتر ین تربیت کرتا ہے : آئے شاگرد کے چند ملاحظہ کرتے ہیں۔

(1) بغیر تیاری کے نہ پڑھانا :استاد کو چاہیے کہ کبھی بھی طلبہ کو بغیر تیاری کے سبق نہ پڑھائے کہ نئے مطالعے سے نئی معلومات اور پیچیدہ نکات واضح ہوتے ہیں۔

(2)شفقت ، حوصلہ افزائی : شاکردوں پر حتی الامکان نرمی و شفقت سے ہی پیش آئے ۔

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں

ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں

اور پھر وقتاً فوقتاً طلبہ کی حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہیے کہ اس سے ان کو آگے بڑھنے کا ذہن ملتا اور ہمت آتی ہے وہ اپنے اہداف کو پورا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔

(3) ہمیشہ سوال کا دروازہ کھلا رکھنا :اسناد کو چاہیے کہ کبھی بھی طلبہ کو سوال کرنے سے نہ روکے کہ سوال آدھا علم ہے۔ اگر چہ بے جا سوال کلاس کا ماحول خراب کرتا ہے مگر حتی الامکان سوال کرنے کا موقع دیا جائے کہ اس سے علمی نکات ، باریکیاں نکالنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔

(4) کند ذہن طلبہ کا احساس :جس طرح ہاتھ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح کلاس میں تمام طلبہ کی ذہنی صلاحیت بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ استاد کو چاہیے کہ کند ذہن طلبہ کو بھی ساتھ لے کر چلے کہ کہیں وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہو جائیں ۔

(5) طلبہ کی اخلاقی تربیت: طلبہ ہماری قوم وملت کا سرمایہ ہیں کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی، استاذ کو چاہیے کہ طلبہ کی وقتاً فوقتاً تربیتی نشست قائم کرتا رہے۔


عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت دارالحکومت اسلام آباد میں 5 ستمبر 2023ء  بروز منگل اسلام آباد سٹی مشاورت کی اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا۔

معلومات کے مطابق دعوتِ اسلامی کی نگرانِ پاکستان مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے8 دینی کاموں کی کارکردگی اور مختلف شعبہ جات کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ کے اہداف و تقرریاں مکمل کرنے کی ترغیب دلائی ۔

آخر میں نگرانِ پاکستان مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے نگران کے مدنی پھولوں میں سے اہم نکات پر ذمہ دار اسلامی بہنوں کی ذہن سازی کی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔


سری لنکا کے شہر کولمبو میں 8 ستمبر 2023ء کو دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام مقامی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ منعقد کیا گیا جس میں مختلف سطح کی ذمہ داران کی شرکت ہوئی۔

مدنی مشورے میں نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن کو ذمہ دار اسلامی بہنوں کا دینی کاموں کے حوالے سے تعارف کروایا گیا کہ کون سی اسلامی بہن کیا کیا دینی کام کر رہی ہیں۔

تعارف کے بعد نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے شرکا کی تربیت کرتے ہوئے انہیں دینی کاموں میں شمولیت اختیار کرنے، استقامت کے ساتھ دینی کام کرنے اور دینی کاموں کی اہمیت پر مدنی پھول دیئے۔آخر میں شرکا اسلامی بہنوں نے  نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن سے ملاقات بھی کی۔سری لنکا کے شہر کولمبو میں 8 ستمبر 2023ء کو دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام مقامی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ منعقد کیا گیا جس میں مختلف سطح کی ذمہ داران کی شرکت ہوئی۔

مدنی مشورے میں نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن کو ذمہ دار اسلامی بہنوں کا دینی کاموں کے حوالے سے تعارف کروایا گیا کہ کون سی اسلامی بہن کیا کیا دینی کام کر رہی ہیں۔

تعارف کے بعد نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے شرکا کی تربیت کرتے ہوئے انہیں دینی کاموں میں شمولیت اختیار کرنے، استقامت کے ساتھ دینی کام کرنے اور دینی کاموں کی اہمیت پر مدنی پھول دیئے۔آخر میں شرکا اسلامی بہنوں نے نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن سے ملاقات بھی کی۔


استاد اور شاگرد کا رشتہ انتہائی اہم اور مقدس ہوتا ہے استاد کے حقوق تو بے شمار ہیں جو کہ شاگرد کے لیے ضروری ہیں کہ وہ اپنے استاد کے حقوق ادا کرے البتہ یہاں شاگرد کے کچھ حقوق بیان کئے جا رہے ہیں لہذا استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے لئے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت اپنا کر اپنے شاگردوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے کو شاں ہوں ۔

1۔عمل سے تربیت: استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگرد کو جس چیز کی تعلیم سے منور کر رہا ہے اس پر وہ خود بھی مکمل طور پر عمل پیرا ہو کیونکہ اگر استاد جس کام کے کرنے کا اپنے شاگردوں کو حکم دے رہا ہے مگر استاد خود ہی اس پر عمل نہیں کرتا تو پھر اس کے دیئے ہوئے حکم پر طالب علم کس طرح عمل کریں گے ؟ لہذا قول و فعل کا ایک جیسا ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ سے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان : اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ۔(پ28، الصف:2)

2۔ نرمی کا پہلو اختیار کرنا :استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کے لیے نرمی اور شفقت کا پہلو اختیار کرے ۔ اگر شاگرد سے کوئی نا مناسب فعل سرزد ہو جائے تو استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگرد کی غلطی کو معاف کر دے اور بردباری اور وقار کے ساتھ پیش آئے۔ فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے :ليس منا من لم يرحم صغيرنا ولم يوقر کبیرنا یعنی وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت و تعظیم نہ کرے۔ ( جامع ترمذی شریف ، 1919)

3۔ شاگرد کے کردار وسیرت کو سنوارنا :استاد کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے لیے توجہ سے کام دے اور شاگرد کی زندگی کو ایسی زندگی میں بدل ڈالے جیسی زندگی گزارنا ہمارے الله پاک اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پسند ہے۔ جو استاد اس چیز کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور پوری توجہ سے کام لیتا ہے وہ استاد قوم کی بڑی خدمت سر انجام دیتا ہے ( آداب استاد و شاگرد ، صفحہ: 35)

4۔ شاگرد کی حوصلہ افزائی کرنا :استاد کو چاہئے کہ اچھی تعلیمی کارکردگی اور درست جوابات دینے پر اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کی ہمت بڑھائے۔ حکایت: ایک مرتبہ ہمارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ابی بن کعب سے پوچھا کیا تجھے معلوم ہے کہ کتاب اللہ کی سب سے عظیم آیت کونسی ہے ؟ ابی بن کعب رضی الله عنہ نے جواب دیا : آیت الکرسی ۔ تو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے خوش ہو کر ان کے سینے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: یھنیك العلم ابا المنذر ۔ابو منذر تجھے علم مبارک ہو ۔( صحیح مسلم شریف : 810)

مذکورہ حکایت سے یہ بات سیکھنے کو ملی کہ استاد کو چاہئے کہ وہ ہر قدم پر اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کریں اس طرح شاکر دوں کو مزید علم سیکھنے کا جوش و جذبہ پیدا ہو گا ۔ اِن شآءَ اللہ

5۔سچ کی تعلیم اور جھوٹ سے نفرت سکھانے کی ترغیب : جس طرح انسان کو زندہ رہنے کے لیے غذا کے بغیر گزارہ کرنا مشکل ہے اس طرح استاد کا بھی سچائی کے بغیر گزارہ کرنا مشکل ہے اگر خدانخواستہ استاد جھوٹ کا سہارا لے گا تو سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ اللہ پاک اور اس کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ناراض ہوں گے ۔ اور دوسرا نقصان یہ ہے کہ شاگردوں کے دلوں میں استاد اور اس کے بیان کردہ یا تحریر کردہ مضمون کی اہمیت کم یا ختم ہی ہو جائے گی لہذا استاد کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ سچ بولے

الله عز و جل ہم سب کو علم نافع سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے " اساتذہ و شاگرد کے جملہ حقوق کو ادا کرنے کی مدنی سعادت نصیب۔ فرمائے (اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )


استاذ اور طالب العلم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے۔ جس طرح شاگرد کے لیے ضروری ہے کہ استاد کے حقوق کو ادا کرے اسی طرح استاد کو چاہیے کہ اپنے طلبا کی بہتر تربیت کے لئے درج ذیل امور پیش نظر رکھے:

(1) طلبہ کو اپنی اولاد کی مثل جانے : استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے لہذا! اسے چاہیے کہ طلبا پر اسی طرح شفقت کرے جس طرح کوئی باپ اپنی حقیقی اولاد پر کرتا ہے۔

(2) ان کی ناکامی پر رنجیدہ: اگر کوئی طالب العلم سبق سنانے میں یا امتحان وغیرہ میں ناکامی سے دو چار ہو تو اس کی ناکامی پر رنجیدہ ہو اور اس کی ڈھارس بندھائے اور اسے ناکامی سے پیچھا چھڑانے کے لئے مفید مشورے دے ۔

(3) کامیابی پر اظہار مسرت: اگر کسی طالبُ العلم کو کوئی کامیابی نصیب ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کرے بلکہ ممکن ہو تو کوئی تحفہ بھی دے اور اس کی مزید کامیابیوں کے حصول کے لئے دعا کرے۔

(4) بیمار ہونے پر عیادت: اگر کوئی طالبُ العلم ( بالخصوص مقیم طالبُ العلم ) بیمار ہو جائے تو سنت کے مطابق اس کی عیادت کرے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ سرورِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لیے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لیے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا ۔ (سنن الترمذی،2/290، حدیث :1971)

(5) طلبہ کی غم خواری: اگر کسی طالبُ العلم کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے تو اس کی غم خواری کرے اور حدیثِ پاک میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی غم زدہ شخص سے تعزیت (یعنی اس کی غم خواری) کرے گا اللہ پاک اسے تقوی کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا۔ اللہ پاک اسے جنت کے جوڑوں میں سے دو ایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہو سکتی ۔ (معجم الاوسط، ج4/429، حدیث: 9392)

(6) طلبہ کے مسائل کے حل میں معاونت: اگر کسی طالبُ العلم کو کوئی پریشانی لاحق ہو مثلاً اس کے پاس کتابیں خریدنے کے لئے رقم نہ ہو تو اسے کتابیں دلوانے میں حتی المقدور اپنا کردار ادا کرے۔ اسی طرح اگر کسی طالبُ العلم کی سماعت یا بصارت کمزور ہے تو اسے اگلی نشستوں پر بٹھا لے۔

(7) تشویق علم : استاد کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً طالبُ العلم کے شوقِ علم کو ابھارتا رہے تا کہ اس کا جذبہ حصول علم سرد نہ پڑ جائے ۔ اس سلسلے میں درجہ میں علم کے فضائل اور اسلاف کے واقعات سنانا بے حد مفید ہے۔

(8) استقامت کی ترغیب: عموماً دیکھا گیا ہے کہ حصولِ علم دین کے لئے آنے والے طلبا کی بہت بڑی تعداد استقامت سے محروم رہتی ہے ۔اس لئے استاد کو چاہیے کہ اپنے (بالخصوص ابتدائی درجے کے ) طلبا کو استقامت کے فوائد، عدمِ استقامت کے نقصانات ، استقامت کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کا بیان کرے اور انہیں دور کرنے کا طریقہ بتائے اور طلبا کو استقامت کے ساتھ حصولِ علم کی ترغیب دے۔

(9) فکر آخرت: فکرِ آخرت سے غفلت باعث ہلاکت ہے لہذا استاد گاہے بگاہے طلبا کو فکر آخرت کی بھی ترغیب دلاتا رہے اور انہیں اپنے ہر ہر فعل کا محاسبہ کرنے کا ذہن دے ۔ اس سلسلے میں امیر اہل سنت مدظلہ العالی کے رسالہ میں سدھرنا چاہتا ہوں اور مجلس المدینۃ العلمیہ کی کتاب "فکر مدینہ مع 41 حکایات عطاریہ " کامطالعہ بے حد مفید ہے۔

(10) اندازِ تخاطب: استاد کو چاہئے کہ طلبا کو مخاطب کرتے وقت تو تڑاق سے بچے بلکہ احترامِ مسلم کو ملحوظِ خاطر رکھے اور انہیں پیار بھرے لہجے میں آپ جناب سے مخاطب کرنے کی کوشش کرے۔ ابے تُبے اور حاکمانہ انداز سے مخاطب کرنے پر ہو سکتا ہے کہ طلبا آپ کے سامنے دبک کر کھڑے تو ہو جائیں لیکن ان کے دلوں میں آپ کے لئے وہ عزت قائم نہ رہے جو ایک استاد کے لئے ہونی چاہیے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں حقوقُ العباد کو بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم