(گزشتہ مضمون میں بارگاہِ رسالت میں ہونے والے سوالات کی10صورتوں کا تعارفی تذکرہ ہوا تھا اور ایک صورت کی مثال پیش کی گئی تھی، مزید چند صورتوں کی مثالیں ملاحظہ کیجئے)

(2)بعض دفعہ ایک ہی سوال بار بار کیا جاتا لیکن نبی کریم ﷺ پھر بھی جواب ارشاد فرماتے چنانچہ

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَرَأَيْتَ رَجُلًا غَزَا يَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالذِّکْرَ مَالَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا شَيْئَ لَهُ فَأَعَادَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يَقُولُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا شَيْئَ لَهُ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ مِنْ الْعَمَلِ إِلَّا مَا کَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ

حضرت سیدنا ابومامہ باھلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں آیا اور عرض کرنے لگا: آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو صرف دولت اور نام ونمود کے لئے جہاد کرے، اس کے لئے کیا اجر ہے؟ رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اس کے لئے کچھ نہیں(یعنی کوئی اجر نہیں) ۔ اس آدمی نے تین بار اسی سوال کو دہرایا، رسولِ کریم ﷺ نے یہی فرمایا کہ اس کے لئے کچھ نہیں، اس کے بعد آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اسی کے واسطے ہو اور جو اسی کی رضا کے لئے کیا گیا ہو۔(سنن نسائی، کتاب الجہاد، باب من غزا یلتمس الاجر والذکر، جلد6، صفحہ25، حدیث:3140 مكتب المطبوعات الإسلامیۃ - حلب)

دیکھا آپ نے!رسولِ کریم ﷺ نے تین بار جواب ارشاد فرمایا اور بالآخر اپنے جواب کی تفصیلی وجہ بھی ارشاد فرمادی جو کہ ایک قانون اور اصول کی حیثیت رکھتا ہے یعنی ”ہر وہ عمل جو خالصتاً اللہ رب العزّت کی رضا کے لئے نہ ہو وہ مقبول نہیں“۔

اسی طرح حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بھی ایک روایت ہے :

أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ أَفْضَلِ الْأَعْمَالِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصَّلَاةُ. قَالَ: ثُمَّ مَهْ، قَالَ ثُمَّ:الصَّلَاةُ قَالَ: ثُمَّ مَهْ، قَالَ: ثُمَّ الصَّلَاةُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ،

ایک شخص پیارے نبی ﷺ کی بارگاہ میں آیا اور آپ سے سب سے افضل عمل کے بارے میں سوال کیا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”الصلوٰۃ“ یعنی نماز، اس نے پوچھا اس کے بعد، فرمایا: پھر نماز، عرض کیا: پھر، ارشاد فرمایا: پھر نماز، (رسول کریم ﷺ نے ) تین بار نماز کا فرمایا۔(صحیح ابن حبان، کتاب الصلاۃ، باب فضل الصلوات الخمس، ذکر الخبرالدال۔۔الخ، جلد5، صفحہ8، حدیث:1722، مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)

(3)مختلف مواقع پر ایک ہی سوال کا دہرایا جانا

بعض سوالات ایسے بھی تھے کہ مختلف مواقع پر بار بار دہرائے جاتے، رسولِ کریم ﷺ پھر بھی جواب ارشاد فرماتے، لیکن اکثر حالات و افراد کے اعتبار سے پہلے کی نسبت جواب الگ ہوتا، جیسا کہ صرف ایک سوال”کون سا عمل افضل ہے؟“ کے ہمیں احادیث کریمہ میں کئی جوابات ملتے ہیں، مثلاً(۱) زبان کی حفاظت کرنا([1]) (۲)اپنے بھائی سے خوش ہوکر ملنا یا اُس کا قرض ادا کردینا یااسے کھانا کھلانا([2]) (۳)طویل قیام([3]) (۴)وقت پر نماز پڑھنا([4])(۵)صبر اور سخاوت([5]) یہ سب مختلف مواقع وافراد کے اعتبار سے ایک ہی سوال کے جوابات ہیں۔

(4)افضل ایمان، اسلام اور عمل کے متعلق سوالات کے جواب دینا

ہر بندہ اس اعتبار سے سوچتا ہے کہ کون سا کام زیادہ بہتر رہے گا،راہِ خدا میں خرچ کرنے کا جذبہ رکھنے والے سوچتے ہیں کہ کیا اور کہاں خرچ کرنا بہتر رہے گا، علمِ دین کا حریص سوچتاہے کہ اس وقت کون سی کتاب پڑھنا زیادہ بہتر رہے گا الغرض ہر کسی کی سوچ اس کے مقصد کی غماز ہے، اسی طرح صحابہ کرام بھی اس پہلو سے سوچا کرتے تھے اور رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں اس طرز کے سوالات کرتے تھے کہ کون سا ایمان یا کون سا اسلام افضل ہے؟ چنانچہ ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں رسولِ کریم ﷺ نے نہ صرف سوال کرنے والے بلکہ رہتی دنیا تک کے ہرفرد معاشرہ کو ایک ایسا نسخہ سمجھادیا جو ایک صالح معاشرے کی بنیاد بنتاہے،بخاری شریف میں ہے:

قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الإِسْلاَمِ أَفْضَلُ، قَالَ: مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ، وَيَدِهِ

لوگوں نے عرض کی:یارسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ۔(صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب ای الاسلام افضل، صفحہ13، حدیث:11)

قارئینِ کرام! غور تو کیجئے کہ کیسے معلم اور عظیم رہبر و رہنما تھے کہ ایک مختصر سے جملے میں کس قدر وسیع معانی و نتائج اور عظیم تَر معاشرتی فوائد پر مشتمل جواب ارشاد فرمایا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ ایسے دو اعضاء ہیں جو اکثر لڑائی جھگڑوں کا باعث ہوتے ہیں اور معاشرتی امن و امان تو تباہ کرتے ہیں۔

(بقیہ آنے والی قسط میں )



([1]): كتاب الصمت و آداب اللسان لابن ابی الدنیا، باب حفظ اللسان وفضل الصمت، صفحه47,رقم:8دارالکتاب العربی،بیروت

([2]):مکارم الاخلاق للطبرانی، باب فضل معونۃ المسلمین۔۔الخ، صفحہ344، رقم:91 دارالکتب العلمیہ، بیروت

([3]):سنن ابی داؤد ،کتاب التطوع ، با ت افتتاح صلاۃ اللیل بر کعتین ، جلد2، صفحہ36، حدیث:1325، المكتبۃ العصريۃ، صيدا - بيروت

([4]):صحیح بخاری ، کتاب التوحید، باب وسمی النبی الصلاۃ عملاً۔۔الخ، صفحہ1862، حدیث:7534 دارابن کثیر، بیروت

([5]):الجامع لشعب الايمان ، السبعون من شعب الایمان، باب فی الصبر علی المصائب..الخ، جلد12، صفحہ192، حدیث:9263, مکتبۃ الرشد،ریاض